مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-117
تاریخ اجراء:12جمادی الاولی1445ھ/27 نومبر2023ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics
Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت
اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ پروڈکٹ کی پروموشن(Promotion) کے لئے بعض دفعہ ہم
یہ آفر دیتے ہیں کہ
ایک پروڈکٹ کی قیمت میں دو پروڈکٹ
لے جائیں، مثلاً عام حالات میں ایک پَرس پانچ سو روپے کا ہے تو ہم پروموشن کی غرض سے پانچ
سو روپے میں دو پَرس دے رہے ہوتے ہیں
، کیا ہمارا ایسا اآفر دینا
جائز ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں جس ڈیل کی آفر کی گئی ہے ، شرعا ًیہ
جائز ہے۔ سوال میں موجود تفصیل کے مطابق تصحیح عقد کے
تناظر میں(in the validation of
contract context
) دو توجیہات (Explanations)ممکن ہیں
اور دونوں کے مطابق اس قسم کا سودا جائز
ہے۔
پہلی یہ کہ پروموشن کی نیت سے 500
کے عوض دو پَرس دینا کسٹمر سے پہلے ہی طے ہو، یعنی کل مبیع
کی قیمت 500 ہے۔ اس صورت میں مبیع اور ثمن دونوں
معلوم ہیں، لہٰذا ایسی بیع جائز ہے۔
دوسری یہ ہے کہ 500 کے عوض صرف ایک پَرس دینا ہی کسٹمر سے
طے ہو لیکن بیچنے والے نے ایک پَرس کے ساتھ دوسرا پَرس اپنی
طرف سے کسٹمر کو پیش کر دیا، یعنی مبیع میں
اضافہ کر دیا اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق مبیع میں
اضافہ کرنا شرعا ًجائز ہے۔
پہلی صورت پر کتبِ فقہاء سے جزئیات:
بدائع الصنائع میں بیع کے درست ہونے کی
شرائط کے بیان میں ہے:”منھا ان یکون المبیع معلوما وثمنہ معلوما علما یمنع من
المنازعۃ“یعنی :بیع
درست ہونے کی شرائط میں سے ہے کہ مبیع اور ثمن کا ایسا
علم ہو جو تنازع سے مانع ہو۔( بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ156، دار
الكتب العلمية)
بیع کی شرائط
بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد
علی اعظمی علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں تحریر
فرماتے ہیں:”مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ
ہوسکے۔ اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو، تو بیع صحیح نہیں
۔ مثلاً اس ریوڑ میں سے
ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی
دام پر بیچا یا اس قیمت
پر جو فلاں شخص بتائے۔“(بہار شریعت، جلد2،صفحہ617، مکتبۃ المدینہ کراچی)
دوسری صورت پر کتبِ فقہاء سے جزئیات:
بیچنے والے کی طرف سے دوسری چیز
بالکل مفت دینا جائز ہے جیسا کہ تنویر الابصار و در مختار میں
ہے:”(و) صح (الزيادة فی
المبيع) ولزم البائع دفعها“یعنی: مبیع میں اضافہ کرنا درست
ہے،اور وہ زائد چیز دینا بائع پر لازم ہو جائے گا۔(درمختار مع ردالمحتار،جلد 5،صفحہ
155،مطبوعہ بیروت)
بائع کا اپنی طرف سے مبیع میں اضافہ کرنا
، جائز ہےجیسا کہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدایہ میں
ہے:”ويجوز للبائع ان يزيد
للمشتری فی المبيع“یعنی: بائع کا مشتری کیلئے مبیع
میں اضافہ کرنا جائز ہے۔(الھدایہ ،جلد3 ، صفحہ 59، مطبوعہ بیروت)
بیچی گئی
چیز میں کسی چیز کا اضافہ کرنا ،جائز ہے جیسا کہ
صدر الشریعہ بد ر الطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بائع نے مبیع میں اضافہ
کردیا، یہ جائز ہے۔“(بہار شریعت، جلد 02، صفحہ 750،
مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟