Prize Bond Ki Photocopy Ki Kharid o Farokht Karna Kaisa?

پرائزبانڈکی فوٹو کاپیوں کی خریدوفروخت کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:fmd:0388

تاریخ اجراء:07شعبان المعظم1438ھ/04مئی2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ پرائز بانڈکی خریداری،  اس پر درج قیمت کے علاوہ مزید اضافی رقم کے ساتھ کی جاتی ہے ۔جس کو عرف میں Onپر خریدنا، بیچنا بھی کہا جاتا ہے ۔پرائز بانڈ مارکیٹ میں ایک طریقہ یہ بھی رائج ہوتا جارہا ہے، کہ انعامی بانڈزکی سیریز کی خرید وفروخت یوں کرتے ہیں کہ مثلاًاس سیریز654301 کی پوری سیریز سو بانڈز پر مشتمل خریدلیتے ہیں، اس طرح کہ اس سیریز کے پہلے بانڈ کی فوٹو کاپی بیچتے ہیں اوربیچنے والاحکومت کی طرف سے جاری کردہ پرائزبانڈاپنے ہی پاس رکھتاہےاورخریدارکوفقط فوٹو کاپیاں دیتاہےاوراس کے بدلے ہر پرائز بانڈ پرجومخصوص رقم لی جاتی ہے وہ وصول کرلیتاہے اوراس طرح جس کے پاس مثال کے طورپرساڑھے سات ہزاروالے 100پرائزبانڈزحاصل کرنے کے لئےان کی قیمت7,50,000(ساڑھے سات لاکھ)روپے نہ بھی ہوں وہ شخص بھی بس اضافی چارجزجیسے 2500 روپےدے کران کی 100فوٹوکاپیاں  حاصل کرسکتاہے،پھرجب تک تاریخ نہ آجائے وہ بیچنے والاان سیریز کے پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیاں کسی اورکو نہیں دے سکتا۔اگر مخصوص تاریخ پران پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کےنمبرزمیں سے کسی پرانعام نکل گیاتواس خریدار کوپوراانعام مل جاتاہےاور اگرانعام نہیں نکلاتووہ فوٹوکاپیاں ضائع قرارپاتی ہیں اوردیئےگئے اضافی چارجزکامالک پرائزبانڈکی فوٹوکاپیاں بیچنے والا ہی قرار پاتا ہے ۔

     میراسوال یہ ہے کہ پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کی خریدوفروخت جائزہے یانہیں؟

سائل:شجاع عطاری(3/A-5،نارتھ کراچی)

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کی خریدوفروخت ناجائزوحرام ہے۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ  سوال میں مذکورپرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کی خریدوفروخت کے اس طریقے کارمیں"پرائزبانڈز"کاحامل شخص،بانڈزاپنی ملکیت اورقبضے میں رکھتاہےاوردوسرا شخص ایک مخصوص رقم کے عوض"پرائزبانڈز" کی فوٹوکاپیاں حاصل کرتاہےاورطےیہ ہوتاہےکہ بانڈزکی ان فوٹوکاپیوں پردرج سیریزمیں سے کسی  نمبرپرانعام نکل آیاتو بانڈزکاحامل، اس فوٹوکاپی کےخریدارکوانعام کی پوری رقم دے گااور انعام نہ لگنے کی صورت میں وہ فوٹو کاپی بےکار ہوکر رہ جاتی ہے۔

     اس طریقے کارکے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے، کہ خریدارایک امید موہوم پر پانسا پھینکتا  ہے،فوٹوکاپیاں لےکرایک مخصوص رقم دیتاہےکہ اگرانعام نکل آیاتواُس کے ضمن میں اُس کی طرف سے گئی ہوئی رقم اُسے واپس مل جاتی ہے اورانعام نہ نکلنے کی صورت میں خریدارکی رقم ڈوب جاتی ہےاورشرعی طورپراصلِ جُوااورروحِ قماریہی ہےاورجُواحرام قطعی ہے۔لہذاپرائزبانڈزکی فوٹوکاپیوں کی خریدوفروخت جائزنہیں۔

     قمارکی وضاحت کرتے ہوئےعلامہ ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں: القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى ، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص یعنی لفظ قمار،قمرسےبناہےجوگھٹتابڑھتارہتاہے۔قمارکوقماراس لئے کہتے ہیں کہ جُواکھیلنے والوں میں سے ہرآدمی کے اندریہ امکان رہتاہے کہ اِس کامال اس کے مقابل کومل جائےیا اُس کا مال اسے مل جائے۔اوریہ نص کی رُوسے حرام ہے۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،ج9،ص665،مطبوعہ:کوئٹہ)

     جُواحرام قطعی ہے،اللہ عزوجل کافرمانِ عالیشان ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجْتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔(القرآن الکریم،سورۃالمائدہ،پ7،آیت90)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم