مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:Har-3837
تاریخ اجراء:09رجب المرجب1441ھ/05مارچ2020ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے
میں کہ میں ایک
سرکاری ملازم ہوں، پہلے میرا کرنٹ اکاؤنٹ تھا، جس
میں میری تنخواہ
آتی تھی، پھر کسی وجہ
سے وہ
اکاؤنٹ ختم کر اکےمیں نےPLS
اکاؤنٹ کھلوایا اور اس سے اصل رقم پر
نفع ملتا رہا ،جوابھی تک
اکاؤنٹ میں ہی موجود ہے،میں نے
استعمال نہیں کیا ۔ پوچھنا یہ ہےکہ اس نفع کے
متعلق شرعا کیا حکم ہے ؟اس نفع کاکیا کروں؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بینک میں رکھوائی گئی رقم کی
حیثیت قرض کی ہوتی ہے اور ازروئے حدیث قرض پر
کسی بھی قسم کا مشروط نفع حاصل کرنا سود و حرام ہوتا
ہے۔اس طرح بینک میں رقم رکھوا کر اس پر منافع لینا
خواہ PLSاکاؤنٹ کے
ذریعے ہو یا کسی اور اکاؤنٹ کے ذریعے ،سودوحرام
ہے،لہذا آپ کا تنخواہ کے لیے مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ،ناجائز تھا ،اس
کی وجہ سے آپ گنہگار ہوئے،لازم ہےکہ اس اکاؤنٹ کو فوراً بند کرائیں
اور اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں سچی توبہ بھی
کریں۔نیز اصل رقم جو تنخواہ کی صورت میں آئی
،وہ آپ کے لیے حلال ہے،اس کو استعمال کر سکتے ہیں، لیکن اس رقم
پر نفع کے نام پر بینک کی طر ف سے جو زیادتی ہے، وہ چونکہ
سود ہے،لہذا آپ پر لازم ہے کہ اولاً اسے وصول ہی نہ کریں اور اگر
یہ ممکن نہ ہو، تو لے کر بغیر ثواب کی نیت کے کسی
فقیر شرعی پر صدقہ کردیں، سود کی رقم کو خود اپنے استعمال
میں لانا ہرگز جائز نہیں ،حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’کل قرض
جر منفَعۃ فھو ربا‘‘ہر قرض جو نفع لائے، وہ سود
ہے۔ (کنزالعمال،ج6،ص99،مطبوعہ لاھور)
مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:’’عن ابن
سیرین قال:اقرض رجل رجلاً خمسین مائۃ درھم و اشترط
علیہ ظھر فرسہ فقال ابن مسعود:ما اصاب من ظھر فرسہ فھو ربا‘‘امام ابنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے:فرمایا کہ ایک
آدمی نے دوسرے آدمی کو پانچ سو درہم قرض دیئے اور
اِس پر اُس کے گھوڑے کی سواری(کا نفع حاصل کرنے)کی شرط
رکھی،تو حضرتِ سیِدُنا عبداللہ ابنِ مسعود رضی
اللہ عنہ نے فرمایا:اس نے گھوڑے کی سواری کا جو
نفع پایا،وہ سود ہے۔ (المصنف
لابن ابی شیبہ،ج10،ص648، المجلس العلمی،بیروت)
درِمختار میں ہے:’’و
فی الاشباہ:کل قرض جر نفعاً حرام‘‘الاشباہ و
النظائر میں ہے:ہر قرض جو نفع کھینچے وہ حرام ہے۔ (در
مختار مع رد المحتار،ج7،ص413،مطبوعہ کوئٹہ)
رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(
کل قرض جر نفعاً حرام)أی:اذا کان مشروطاً‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول(ہر وہ قرض جو نفع لائے حرام ہے) یعنی
جب مشروط ہو۔(رد المحتار علی
الدرالمختار،ج7،ص413،مطبوعہ کوئٹہ)
ہدایہ میں ہے:’’أن
الرباٰ ھو الفضل المستحق لأحدالمتعاقدین فی
المعاوضۃ الخالی عن عوض شرط فیہ ‘‘سود وہ عقد
معاوضہ میں متعاقدین میں سے کسی ایک کے لیے
ثابت ہونے والی ایسی زیادتی ہے، جو عوض سے
خالی (اور) عقد میں شرط کی گئی ہو۔(ھدایہ
مع فتح القدیر،ج 6،ص 151، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد
فرماتے ہیں :’’جومال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل
کیا ،اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں
اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت
کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت
مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی
کانہیں۔ یہی حکم سُود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے، فرق صرف
اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض
نہیں، بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے،وذٰلک
لان الحرمۃ فی الرشوۃ وامثالھا لعدم الملک اصلا فھو عندہ
کالمغصوب فیجب الرد علی المالک او ورثتہ ما امکن اما فی
الربٰو اواشباھہ فلفساد الملک وخبثہ و اذا قدملکہ بالقبض
ملکاخبیثا لم یبق مملوک الماخوذ منہ لاستحالۃ اجتماع
ملکین علی شیئ واحد فلم یجب الرد وانما وجب الانخلاع عنہ
اما بالرد واما بالتصدق کما ھو سبیل سائر الاملاک الخبیثۃ“ترجمہ:یہ اس لیے کہ رشوت اور اس جیسے مال
میں ملکیت بالکل نہ ہونے کی وجہ سے حرمت ہے ،لہٰذا وہ مال
رشوت لینے والے کے پاس غصب شدہ مال کی طرح ہے لہٰذا ضروری
ہے کہ جس حد تک ممکن ہو وہ مال اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو
لوٹادیاجائے ،اور جہاں تک سُود یا اس جیسی اشیاء کا
معاملہ ہے اس میں حرمت فسادِ مِلک اور خباثت کی بناء پر ہے اور
جب ملک خبیث پر قبضہ کرنے کی وجہ سے وہ مالک ہو گیا ،تو جس
سےمال لیاگیا اب اس کی ملکیت باقی نہ رہی ،
اس لیے کہ ایک چیز پر بیک وقت دو مِلک جمع ہونے محال
ہیں، لہٰذا مال ماخوذ کا واپس کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس
سے علیحدگی واجب ہے، خواہ اسی کو واپس لوٹا یا جائے
یا صدقہ کر دیا جائے جس طرح دیگر املاک خبیثہ کا حکم ہوتا
ہے ۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج23، ص551تا 552، رضا
فاؤنڈیشن، لاھور)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد
فرماتے ہیں :’’سود میں جو مال ملتا ہے، وہ سود خور
کے قبضہ میں آکر اگر چہ اس کی ملک ہو جا تا ہے،لان
ھذا ھو حکم العقود الفاسدۃ
(کیونکہ عقود فاسدہ کا یہی حکم ہے )مگر وہ
ملک خبیث ہو تی ہے ، اپنے حوائج میں اسے خرچ کرنا
حرام ہو تا ہے، اگر اپنے خرچ میں لائے گا، تو وہ اب بھی
سود کھا رہا ہے اور اس کی توبہ جھوٹی ہے،لانہ لم
یندم علی الماضی وماترک فی الاتی ولم
یمح الباقی فلم یوجد شئی من ارکان
التوبۃ۔کیونکہ وہ گزشتہ پر نادم نہیں
ہوا اور آئندہ کے لیے اس کو چھوڑا نہیں اور نہ
ہی باقی کو مٹایا ،تو اس طرح ارکان تو بہ میں سے
کوئی بھی نہیں پا یا گیا۔ملخصا‘‘(فتاوی
رضویہ،ج17،ص379، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟