Plot Ki Khareedo Farokh Ki Sorat Aur Ahkam

پلاٹ کی خرید و فروخت کی چند صورتیں اور احکام؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-11912

تاریخ اجراء: 06 جمادی الاولی 1443 ھ/11 دسمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ فی زمانہ پلاٹس کی خرید و فروخت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے جس کی چند صورتوں سے متعلق رہنمائی مطلوب ہے :

1.    سوسائٹی نے اعلان کیا کہ ہمارے پاس اتنی ایکڑ زمین موجود ہے اور اس کا باقاعدہ نقشہ جاری کر دیا کہ یہاں روڈ، یہاں پلاٹ ہیں ،پلاٹ کے باقاعدہ نمبر بھی جاری کر دیے ،مگر ابھی وہاں کھیت یا کوئی اور چیز ہے ، فزیکلی طور پر باقاعدہ کٹِنگ یا مارکنگ نہیں کی گئی کہ کون سا پلاٹ نمبر کہاں ہے ؟ مگر نقشے میں سب کچھ موجود ہے ،اس نقشے کے مطابق ہی کالونی میں کام ہوگا ، نیز پلاٹ کی قیمت بھی گز یا مرلے کے حساب سے متعین ہے تو ایسا متعین پلاٹ خریدنا، جائز ہے، جبکہ مارکنگ نہیں کی ہوئی ؟

2.    سوسائٹی نے اعلان کیا کہ فلاں علاقے میں فلاں نمبر متعین پلاٹ دیا جائے گا، مگر وہاں بجلی ، پانی ، گیس ، سیوریج وغیرہ بنیادی سہولیات کا کوئی انتظام نہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں رہائش اختیار کرنا بہت مشکل ہے۔ یا جو پلاٹ خریدا ، وہ متعین ہے اور وہاں رہائشی سہولیات بھی موجود ہیں ،مگر فی الحال وہ جگہ باقاعدہ آباد نہیں ہوئی ۔ اس سوسائٹی کی طرف سے اس کے علاوہ کوئی ایسی شرط نہیں جس کو خرید و فروخت میں ناجائز کہا جا سکے ۔ صرف یہ ایک پہلو ہے جس سے یہ لگ رہا ہے کہ غیر آباد اور بنجر زمین کو خریدنے پر کوئی شرعی رکاوٹ تو نہیں ہوگی ؟

3.    سوسائٹی نے اعلان کیا کہ فلاں ایریا ہے ، اس میں سے کوئی ایک پلاٹ آپ کو ملے گا یعنی ایک حد تک تو واضح ہو گیا کہ علاقہ کون سا ہے، مگر اس پلاٹ کی تعیین نہیں کہ پلاٹ نمبر کون سا ہو گا؟ کس جگہ ہوگا؟کچھ مہینے یا سال گزرنے کے بعد ہر ایک کا پلاٹ نمبر دے دیا جاتا ہے ۔

4.    سوسائٹی نے اعلان کیا کہ آپ کو اتنی رقم میں پلاٹ دیں گے ،مگر ان کی مقرر کردہ کالونی کی جگہ ، پلاٹ کی قیمت ، خریدنے والوں کی تعداد وغیرہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ان کے پاس اتنے پلاٹ موجود ہی نہیں۔پلاٹ خریدنے کی صورت میں کوئی معین جگہ بھی نہیں بتائی جاتی، بلکہ صرف ایک فائل دے دی جاتی ہے ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بعض لوگوں کو باقاعدہ پلاٹ دے دیا جاتا ہے، جبکہ بعض لوگوں کو جھوٹے آسرے دیے جاتے ہیں۔

آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ مندرجہ بالا صورتوں میں پلاٹ خریدنے کے شرعی احکام کیا ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)پلاٹ کا محل وقوع معلوم ہے یعنی نقشے میں پلاٹ نمبر ، گلی نمبر ، فیز / کالونی / سیکٹر وغیرہ سب چیزیں متعین ہیں اور بات نقشے تک محدود نہیں ،بلکہ حقیقت میں بھی اسی طرح ہے ،آپ پلاٹ پر کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیں، تو آپ معلوم کر سکتے ہیں وہاں کھڑے ہو کر کہ یہ پلاٹ آپ خرید رہے ہیں۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ ڈویلپمنٹ کے کام نہیں ہوئے ہوتے ۔پلاٹ ،روڈاور گلی سے حسی طور پر الگ سے ممتاز نہیں ہوتے ،تو اس سے کوئی خرابی واقع نہیں ہوگی ۔ایسی زمین میں عام آدمی کو اپنا پلاٹ پہچاننا اگرچہ کچھ مشکل ہوتا ہے ،لیکن انجینئر یا ڈویلپمنٹ ٹیم نقشہ کو دیکھ کر بآسانی نشان دہی کر سکتی ہے کہ آپ کا پلاٹ اس جگہ پر ہے۔ اس طرز کے ایریا میں ساری کٹنگ نقشہ کے مطابق ہی ہونی ہوتی ہے، لہذا یہ کیفیت پلاٹ کے متعین ہونے کے منافی نہیں ، لہذا اس کیفیت میں موجود پلاٹ کا خریدنا بیچنا جائز ہے۔

   عالمگیری میں بیع کے صحیح ہونے کی شرائط کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ” أن يكون المبيع معلوما“ ترجمہ:(بیع صحیح ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع معلوم ہو ۔ (عالمگیری،ج3،ص3، مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے: ”مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے۔ اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو، تو بیع صحیح نہیں مثلا: اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام پر بیچا یا اس قیمت پر جو فلاں شخص بتائے۔“(بھار شریعت، ج2، ص617، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   (2)اس صورت میں پلاٹ خریدنا ، جائز ہے، کیونکہ یہاں پلاٹ متعین ہے ، اس کی قیمت متعین ہے اور سائل کے بقول کوئی دوسری ایسی شرط بھی نہیں جس کی وجہ سے یہ معاہدہ شرعا ناجائز قرار پاتا ہو ، تو ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی ۔

   یہ سمجھنا کہ وہاں زندگی گزارنے کی سہولیات موجود نہیں یا سہولیات موجود ہونے کے باوجود آبادی نہیں ،تو یہ خریداری ناجائز ہونی چاہیے ، صحیح نہیں کیونکہ کسی زمین کی خریدو فروخت جائز ہونے میں یہ ضروری نہیں کہ وہاں رہائش ہو سکتی ہو ،تو ہی خریداری جائز ہے،بلکہ زمین کا مقدور التسلیم (سپرد کرنے پر قدرت)ہونا اورزمین سے جائز نفع اٹھانا ، ممکن ہونا ،اس خریداری کو با مقصد بنانے کے لیے کافی ہے ،اب آگے بندے کی مرضی ہے، وہ اس سے کس انداز کا جائز نفع اٹھائے۔

   ملک العلماء امام کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:” ان الاصل فی رکن البیع اذا صدر عن الاھل فی المحل ھو الصحۃ“ ترجمہ :اصل یہ ہے کہ جب بیع کا رکن اہل سے محل میں صادر ہو،تو یہ بیع صحیح ہے ۔ (بدائع الصنائع،کتاب البیوع،فصل فی شرائط الصحۃ،ج 5،ص181، دار الکتب العلمیہ)

   بیع کا مدار نفع کی حلت پر ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:’’ والحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع ، مجتبى ۔ واعتمده المصنف وسيجيء في المتفرقات‘‘ ترجمہ: خلاصہ یہ کہ بیچنے کا جواز اس چیز سے فائدہ حاصل کرنے کے جواز پر موقوف ہے اور اسی پر مصنف نے اعتماد فرمایا اور عنقریب متفرقات میں آئے گا ۔

   واعتمده المصنف کے تحت شامی میں ہے:’’ وهو ظاهر، فليكن المعول عليه‘‘ترجمہ : یہی ظاہر ہے، لہذا اسی پر اعتماد کرنا چاہیے ۔ (الدر المختار مع ردالمحتار ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، ج7، ص261، مطبوعہ کوئٹہ )

   بیع میں اصل حصول نفع ہے ،چنانچہ جد الممتار میں ہے:’’ قلت: ولكن معلوم أنّ صحّة البيع إنّما يعتمد الانتفاع، والانتفاع بما وراء الخنزير ممكن حلال ولو بجلده أو بعض أجزائه التِي لا يحلّها الموت أو بلحمه أيضاً في غير الأكل بعد الذكاة‘‘ ترجمہ :میں کہتا ہوں :لیکن معلوم ہے کہ بیع درست ہونے کا مدار انتفاع پر ہے اور خنزیر کے علاوہ سب جانوروں سے نفع حاصل کرنا ، ممکن اور حلال ہے ، اگرچہ ان کی کھال یا ان کے بعض اجزاء سے ہو، جن میں موت حلول نہیں کرتی یا ذبح شرعی کے بعد کھانے کے علاوہ گوشت کے ساتھ (نفع اٹھانا ، ممکن ہے۔) (جد الممتار ، کتاب البیوع ، باب المتفرقات ، ج6، ص150، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   یہاں ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ غیر آباد رہائشی سوسائٹیز میں بلڈر کی طرف سے بعض اوقات کچھ وعدے کیے جاتے ہیں کہ ہم ڈویلپمنٹ کے کام کروائیں گے اور اتنے عرصے میں کروادیں گے، ان کو اپنے وعدوں کی پاسداری لازم ہے اور جو وعدے پلاٹ بیچتے وقت کیے ہیں انہیں ضرور پورا کریں ۔ اگر بلڈر کی طرف سے کسی بھی قسم کے ڈویلپمنٹ کرنے کا وعدہ نہیں ہے، تو پھر ان پر یہ بوجھ عائد نہیں ہوگا۔

    (3) پلاٹ خریدنے کی یہ صورت ناجائز و حرام ہے ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہےکہ خریداری کا عمومی اصول ہے کہ جو چیز خریدی جائے ، وہ متعین طور پر معلوم ہو ۔ اگر مبیع معلوم نہ ہو، تو یہ بیع فاسد کہلاتی ہے ۔سوال میں بیان کردہ طریقہ کار میں چونکہ عقد کے وقت پلاٹ متعین نہیں ہوتا ، ایگریمنٹ کےکچھ عرصہ بعد پلاٹ نمبر دیا جاتا ہے، تو اس طریقہ میں پلاٹ کی کیفیت مجہول (Unknown) ہے اور اسی شِق کی وجہ سے بڑےبڑے فراڈ ہوتے ہیں کہ بعض بلڈرز کے پاس اتنی زمین ہی نہیں ہوتی جتنے پلاٹ وہ فروخت کر رہے ہوتے ہیں یا لوگوں کی توقعات اور ترجیحات کے خلاف پلاٹ ملتا ہے ،تو لوگوں کا اس میں نقصان ہوتا ہے۔ پلاٹ کا محل وقوع وہ چیز ہے جس کی وجہ سے پلاٹ کی قیمت کم زیادہ ہوتی ہے ۔ آخری کونے کا پلاٹ الگ ویلیو رکھتا ہے اور شروع یا کارنر کا پلاٹ الگ ویلیو رکھتا ہے، لہذا خریداری کے وقت پلاٹ کا نمبر کم از کم نقشہ میں دکھایا جانا ضروری ہے، اگرچہ پلاٹ کی کٹنگ نہ ہوئی ہو، لیکن نقشے سے خریدار کو معلوم ہو جائے گا کہ پلاٹ کا محل وقوع کیا ہے؟ اور جہالت دور ہو جائے گی ۔

   زمین متعین نہ ہو، تو بیع فاسد ہونے کے متعلق تنویرالابصارمیں ہے :’’ فسدبیع عشر ۃ اذرع من مائۃ ذراع من دار‘‘ ترجمہ: گھرکے سو گز میں سے دس گزکی بیع فاسدہے۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار ، کتاب البیوع ، ج7، ص70، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’ اگر گواہان عادل سے ثابت ہوجائے کہ عقد زبانی میں فی گز 6 کی تصریح تھی اور اسی حساب سے 24 گز(9لعہ) روپے کو بیع ہوئی ،تو اگر 24 گز مبیع کی تعیین سمت بھی ہوگئی تھی ،جیسا کہ اب عرضی دعوٰی کے بعض بیانو ں سے مستفاد ہے ،تویہی 24 گز جانب غربی سے بیع ہوئی۔ باقی پر مشتری کا قبضہ باطل ہے اور اگر تعیین نہ تھی جیسا کہ بیان بیع میں کہ عرضی دعوٰی میں ہے، اس وقت تک نہیں ،تو یہ بیع بوجہ جہالت فاسد ہوئی۔لان الذراع انما یحل فی المعین فھو معین لکنہ مجھول الموضع لامشاع کما فی ردالمحتار، تنویر الابصار میں ہے:’’ فسد بیع عشرۃ اذرع من مائۃ ذراع من دار۔۔۔ ‘‘اسی طرح اگر بعد مجلس اس عقد فاسد کو ترک کر کے ایک طرف سے 24 گز معین بائع نے مشتری کو دئیے اور اس نے لئے تو بھی صحیح ہو گئی۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج17، ص125،رضافاونڈیشن،لاھور)

   بیع فاسد کو ختم کرنے سے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:’’ البيع الفاسد واجب الفسخ حقا للشرع رفعا للفساد‘‘ترجمہ:فساد کو دور کرنے کے لیے بیع فاسدکوفسخ کرناشرع کے حق کی وجہ سے واجب ہے۔( بدائع الصنائع، ج4،ص102،دار الکتب العلمیہ)

   بیع فاسد کو فسخ کرنے سے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:”بائع ومشتری دونو ں گنہگار ہوئے اور دونوں پر بحکم شرع واجب ہے کہ اپنے اس بیع کوفسخ کریں ،ان میں جو کوئی نہ مانے دوسرا بے اس کی رضامندی کےکہہ دے :میں نے اس بیع کو فسخ کیا فوراً فسخ ہوجائے گی اور اگر دونو ں فسخ      کرنا نہ چاہیں اورحاکم شرع کو خبر ہو، تو وہ جبر اً فسخ کردے کہ گناہ کا زائل کرنا فرض ہے۔“  ( فتاوی رضویہ ،ج17،ص 154،153، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   (4) اس صورت میں پلاٹ خریدنا ، جائز نہیں ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مندرجہ بالا وضاحت کے مطابق جو چیز خریدی جا رہی ہے ، اس کا معلوم و متعین ہونا ضروری ہے ۔ اگر مبیع مجہول ہو تو بیع فاسد کہلاتی ہے ۔سوال میں درج وضاحت کے مطابق اس طریقہ کار میں بھی مبیع معلوم نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ بیع فاسد و ناجائز ہو تی ہے اور اگر حقیقت میں پلاٹ موجود نہ ہو ،تو اس صورت میں شرعا بیع باطل اور ناجائز ہے ۔بلڈر کا یہ سوچنا کہ جب تک پلاٹ بُک ہو کر قسطیں ملیں گی ، قبضہ دینے کا وقت آئے گا ، تب تک میں زمین خرید کر قبضہ دلا دوں گا ،اس عقد کو جائز نہیں کر سکتا ، یہ عقد ناجائز ہی رہے گا ۔

   پلاٹ موجود تو ہو ،مگر متعین نہ ہو، تو اس کے ناجائز ہونے سے متعلق جزئیات ودلائل جواب نمبر 2 میں گزر چکے ہیں ۔ اگر پلاٹ موجود ہی نہ ہو یا اپنی ملک میں نہ ہو، تو اس کے عدم جواز سے متعلق جزئیات ملاحظہ فرمائیں:معدوم کی بیع سے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لا يحل بيع ما ليس عندك‘‘ ترجمہ: جو چیز تیرے پاس نہ ہو ، اسے بیچنا حلال نہیں ۔ (سنن ابن ماجہ،ص158،مطبوعہ کراچی)

   جو چیز مِلک میں نہ ہو ، اس کی بیع باطل ہے، چنانچہ درمختارمیں ہے : ’’بطل۔۔۔بیع ما لیس فی ملکہ لبطلان بیع المعدوم‘‘ترجمہ:جو چیز ملک میں نہ ہو اس کی بیع باطل ہے ،کیونکہ معدوم کی بیع باطل ہے۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:’’المراد بیع ما سیملکہ قبل ملکہ لہ ثم رایتہ کذلک فی الفتح فی اول بیع الفضولی وذکر ان سبب النھی فی الحدیث ذلک ‘‘ترجمہ:مراد وہ چیز ہے جس کا عنقریب مالک بن جائے گا ، اسے ملکیت سے پہلے بیچنا ، پھر میں نے یہی مسئلہ فتح القدیر کے بیع فضولی کے ابتدا میں دیکھا اور انہوں نے ذکر کیا کہ اس سے ممانعت کا سبب حدیث میں منع کرنا ہے ۔(الدر المختارمع ردالمحتار، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، ج7، ص245، مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے:’’معدوم کی بیع باطل ہے۔‘‘ (بھارِ شریعت،ج2،ص697،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اسی میں ہے:’’جو چیز اس کی ملک میں نہ ہو اُس کی بیع جائز نہیں یعنی اس امید پر کہ میں اس کو خریدلوں گا یا ہبہ یا میراث کے ذریعہ یا کسی اور طریق سے مجھے مل جائے گی ،اُس کی ابھی سے بیع کردے ،جیسا کہ آج کل اکثر تاجر کیا کرتے ہیں ،یہ ناجائز ہے ،پھر اگر اس طرح بیع کی اورخریدکر مشتری کو دیدی جب بھی باطل ہی رہے گی۔یوہیں وہ چیز جو ابھی طیار(تیار) نہیں ہے، بلکہ آئندہ ہوگی، مثلاً: کپڑا، گُڑ، شکر، جو ابھی موجود نہیں ہے ،اس امید پر بیچی کہ آئندہ ہوجائےگی، یہ بیع بھی باطل ہے کہ معدوم کی بیع ہے ۔ ملتقطا ‘‘(بھار شریعت ، ج2، ص700، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم