Patojri Ki Khareedo Farokht Ka Hukum ?

پتوجڑی کی خرید و فروخت کا حکم؟

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar-6536

تاریخ اجراء: 10جمادی الاولیٰ 1442 ھ/26دسمبر   2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گائے کے پیٹ میں دو قسم کی اوجھڑی ہوتی ہے۔ ایک بڑی  اور ایک اس کے ساتھ بٹوے (پرس) کی شکل میں چھوٹی ہوتی ہے۔ اس میں بھی پیٹ کی طرح گوبر اور غلاظت بھری ہوتی ہے، اس کو پتوجڑی  کا نام دیا جاتا ہے۔اس کو اکثر لوگ اب بیچتے  ہیں ، جو بیرون ملک ایکسپورٹ ہوتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان سے کاسمیٹک کا سامان بنتا ہے۔ اللہ بہتر جانے اس کا کیا ہوتا ہے،لیکن آنکھوں دیکھا حال ہے کہ اس کی مالیت کافی ہے،یعنی ایک پتوجڑی کی قیمت فی الوقت 1500روپے  تک بھی گئی ہے۔اس پتوجڑی میں بڑے پیٹ کی بنسبت زیادہ نجاست پائی جاتی ہے، اس کا صاف کرنا بھی انتہائی مشکل امر ہے۔عرض یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اس کی خرید وفروخت کرناکیسا ہے؟نیز  اس کی رقم کسی دینی کا م میں خرچ کرنایا کسی غریب کودے دینا کیساہے؟

   یادرہےکہ ہمارے ہاں اکثر لوگ بیرون ممالک ایکسپورٹ کرنے کے لیےخریدتے ہیں،کھانے کےلیے بہت کم لوگ خریدتےہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پتوجڑی کھانا،ناجائز وگناہ ہے،اگرچہ ذبح شرعی کے ساتھ ذبح کیے ہوئےجانورکی ہواورجب اسے کھانا ناجائز ہے،تو ایسے کے ہاتھ بیچنا بھی جائزنہیں جوکھانے کے لیے خریدرہاہےکہ یہ گناہ پر معاونت کرنا ہے،البتہ  اگر پتوجڑی ذبح کیےہوئے جانور کی ہواور خریدنے والے کے متعلق معلوم ہو کہ کھانے کے لیے نہیں خریدتا( یعنی بیرونی استعمال کے لیےخریدتا ہویابیرونی استعمال کی چیزوں جیساکہ کاسمیٹک کے سامان میں استعمال کے لیے یا آگے بیچنے کے لیے وغیرہ )تو اُسےبیچنا جائز ہے، کیونکہ  ذبح کیےہوئے جانور کی پتوجڑی پاک ہے ،اس کا بیرونی استعمال جائز ہے،اگرچہ اِسے کھانا حرام ہے اور بیچنے سے حاصل ہونے والی رقم کسی دینی کام میں خرچ کرنایا کسی غریب کو دے دینا بھی جائزہے کہ اس میں خباثت و کراہت آنے کی کوئی وجہ نہیں ۔

   نوٹ: پتوجڑی اگر قربانی کےجانور کی ہو اور قربانی کرنے والا اپنے لیے بیچ رہا ہے، تواوپرجو جوازوالی صورت بیان ہوئی اس میں بھی یہ جائز نہیں ہےکہ یہ تمول ہے اور قربانی سے تمول (یعنی اپنے خرچ کے لیے روپے یا کسی ایسی چیز سے بدلناجوخرچ ہوجاتی ہے)جائز نہیں ہے۔

   فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت رحمۃاللہ علیہ  فرماتے ہیں:” اب فقیر متوکلا علی اللہ تعالی کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام، کرش یعنی اوجھڑی ،امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں، بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرش وامعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔فرج وذکر اگر گزر گاہ بول ومنی ہیں ،دُبرگزر گاہ سرگین ہے، مثانہ اگر معدن بول ہے، شکنبہ و رودہ مخزن فرث ہے ،اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے، خواہ اجرائے علت منصوصہ، الحمدللہ بعد اس کے فقیر نے ینابیع سے تصریح پائی کہ امام رضی اللہ تعالی عنہ نے دبر کی کراہت پر تنصیص فرمائی۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد20،صفحہ238،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید فتاوی رضویہ میں ہے : ’’مذبوح جانور ماکول اللحم کا پھکنا بالاتفاق اپنی ذات میں تو کوئی نجاست نہیں رکھتا، فی الدرالمختار کل اھاب ومثلہ المثانۃ والکرش دبغ طھر وفی التنویر وماطھر بہ طھر بذ کا ۃ ۔درمختار میں ہے ہر چمڑہ اور ایسے ہی مثانہ اور گُردے جب دباغت کر لیے جائیں توپاک ہوجاتے ہیں اور تنویر میں ہے جو اس طرح پاک ہوجاتے وہ ذبح سے بھی پاک ہوجاتے ہیں۔ ‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد3،صفحہ267،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   بہار شریعت میں ہے:”جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ذبح شرعی سے اون کا گوشت اور چربی اور چمڑا پاک ہو جاتا ہے، مگر خنزیر کہ اس کا ہر جز نجس ہے اور آدمی اگرچہ طاہر ہے، اس کا استعمال ناجائز ہے۔ (درمختار)ان جانوروں کی چربی وغیرہ کو اگر کھانے کے سوا خارجی طور پر استعمال کرنا چاہیں ،تو ذبح کر لیں کہ اس صورت میں اوس کے استعمال سے بدن یا کپڑا نجس نہیں ہوگا اور نجاست کے استعمال کی قباحت سے بھی بچنا ہوگا۔“(بھارشریعت ،جلد3،صفحہ327،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”اس کو بھی اگر چھوڑیں اور ہم فرض کرلیں کہ معاذاللہ !ذبح کرنے والے نے غیر اللہ کی عبادت کی نیت سے جانور کو کاٹا اور وہ مرتد ہوگیا، تب بھی جانور حرام ہوگا، مگر اس کا چمڑا نجس نہ ہوگا، امام قاضی خان کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ ذبح مطلقاً چمڑے کوپاک کردیتا ہے،خواہ ذبح کرنے والا مرتد یا مجوسی ہو۔ بحرالرائق میں ہے کہ مجتبیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ہم نے معراج الدرایہ سے پہلے نقل کیا ہے کہ مجوسی یا قصداً بسم اللہ نہ پڑھنے والے کا ذبیحہ بھی پاک ہے، اگرچہ وہ کھانے کے لیے حرام ہے، یہی صحیح ہے نیز صاحبِ معراج نے بھی اس مسئلہ کو قنیہ سے نقل کیا اور کہا کہ پاک ہے۔ اس کے اصح ہونے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ صاحبِ نہایہ نے اس شرط کو قیل کے ساتھ ذکر کیا اور اس کو قاضی خان کی طرف منسوب کیا ہے۔“  (فتاوی رضویہ جلد3،صفحہ257،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   سیدی اعلی حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :”  بھنگ اورافیون کا گورنمنٹ سے ٹھیکہ لے کر دکان کرے ،تو بھنگ لینا اور دکانداری کرنا،جائز ہے یا ناجائز؟تو اعلی حضرت رحمۃاللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:’’بھنگ اور افیون بقدر نشہ کھانا پینا حرام ہے۔اور خارجی استعمال نیز کسی دوا میں قدر قلیل جز و ہو کہ روز کے قدر شربت میں قابل تفتیر نہ ہو، اندرونی بھی جائز، تو وہ معصیت کےلیے متعین نہیں،تو ان کی بیع حرام نہیں، مگر اس کے ہاتھ کہ معصیت کے لیے اسے خریدے، لیکن اکثر وہی ہیں، تو ان کی تجارت میں احتیاط سخت دشوار اور اسلم احتراز ۔“ (فتاوی رضویہ، جلد19،صفحہ537،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے ”افیون نشہ کی حدتک کھانا حرام ہے اور اسے بیرونی علاج مثلاً ضمادوطلاء میں استعمال کرنا یاخوردنی معجونوں میں اتنا قلیل حصہ داخل کرنا کہ روز کی قدر شربت نشے کی حدتک نہ پہنچے توجائزہے اور جب وہ معصیت کے لیے متعین نہیں، تو اس کے بیچنے میں حرج نہیں مگر اس کے ہاتھ جس کی نسبت معلوم ہوکہ نشہ کی غرض سے کھانے یاپینے کولیتاہے’’لان المعصیۃ تقوم بعینھا فکان کبیع السلاح من اھل الفتنۃ‘‘ اس لیے کہ گناہ عین شے کے ساتھ قائم ہوتاہے، پھر اس کی مثال اس طرح ہوگی جیسے ’’اہل فتنہ‘‘ کے ہاتھ ہتھیار فروخت کرنااور جب اس کی تجارت مطلقاً حرام نہ ہوئی، بلکہ جائز صورتوں پر بھی مشتمل ہوئی ،تو زیادہ مقدار تاجروں کے ہاتھ بیچنا اور ہلکا ہوگیا کہ یہاں تعین معصیت اصلاً نہیں اور ان کا نشہ داروں کے ہاتھ بیچنا ان کا فعل ہے ۔’’وتخلل فعل فاعل مختار یقطع النسبۃ کما فی الھدایۃ وغیرھا‘‘ کسی فاعل مختارکے کام کا درمیان میں گھُسنا نسبت کو منقطع کردیتاہے، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں ہے ۔ یہ صورتیں اس کے جواز کی نکلتی ہیں اور اہل تقویٰ کو اس سے احتراز زیادہ مناسب۔“(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ574،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”اجزائے اضحیہ سے صرف تمول ممنوع ہےکہ اس کے دام کرکے اپنے کام میں لائے جائیں۔ من باع جلد اضحیۃ فلا اضحیۃ لہ ۔ جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی اس کی قربانی نہ ہوئی۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد20،صفحہ480،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم