مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصدق:مفتی
محمد قاسم عطاری
تاریخ اجراء:11رجب المرجب1442ھ/24فروری2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ پتنگ اڑانے،بنانے اور فروخت کرنے کے بارے
میں شرعی حکم کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
موجودہ دور میں
جس انداز میں پتنگ بازی رائج ہے، جو انتہائی
بے پردگی،بے حیائی، بیہودگی،
شورشرابے،گانے باجے،ہوائی
فائرنگ، ایذائے مسلم، پڑوسیوں
کے حقوق کی بربادی، کروڑوں
اربوں روپے کے بجلی کے نظام کی تباہی،
گردنیں کاٹنے، راہ گیروں کو زخمی کرنے، جانیں ہلاک کرنے، اور اس
طرح کے محرمات کا مجموعہ ہے۔ ایسی پتنگ اڑانا، بنانااور فروخت کرناشرعا سب ناجائزوگناہ ہے۔پتنگ اڑاناایک فضول وعبث کھیل
ہے،جس کادینی یادنیاوی
اعتبارسے کوئی فائدہ
نہیں اور نقصان بے شمار ہیں۔نبی
کریم صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے
مسلمان کے لیے اس طرح کے ہرلہوولعب کھیل کوناجائز قرار دیاہے۔
دل
میں ایمان رکھنے
والا یا انسانیت کی کچھ رَمَق رکھنے والا بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ پتنگ اڑانے میں لوگوں کوجانی ومالی ضرر پہنچتا رہتا ہے۔ پتنگ بازی کے ایام میں ہزاروں
خبریں موصول ہوتی
ہیں کہ راہ چلتے یاسواری پرسفرکرتے ہوئے گلے پر ڈور
پھرنے سے فلاں کی جان چلی گئی یاکسی حادثے کا شکار ہوگیااورڈور یا پتنگ کے بجلی کی تاروں میں الجھنے سے
بھی مالی وجانی
نقصانات ہوتے رہتے ہیں اوردین اسلام
کا قطعی اور پُرزور حکم ہے کہ لوگوں کو جانی مالی نقصان نہ پہنچایا
جائے۔
پتنگ بازی میں دوسرا پہلو
یہ بھی ہے کہ پتنگ اڑانا
،بنانااورفروخت کرناقانوناً
جُرم ہے، جس کے مرتکب کوسزااورذلت
کا سامناکرنا پڑتاہے اوراسلامی حکم یہ ہے
کہ ملک کاایساقانون جوخلافِ شرع نہ ہواوراس کاارتکاب قانوناًجرم ہو،جس بناپرسزااورذلت کاسامناکرناپڑتاہو،توایسے قانون کی خلاف ورزی کرناشرعابھی جائزنہیں ہے، کیونکہ
یہ خود ذلیل ہونا ہےاوریہ
عمل بھی ناجائزوگناہ ہے، لہٰذا
پتنگ اڑانا،بنانااورفروخت کرنا قانونی
اور شرعی دونوں اعتبارسےجائزنہیں۔
پتنگ بنانااورفروخت کرناچونکہ
اِسی مروجہ
ناجائز و حرام
پتنگ بازی کے گناہ کے لیے متعین ہے کیونکہ پتنگیں فقط اڑانے کے لیے
ہی بنائی اورفروخت
کی جاتی ہیں،اس
کے علاوہ کسی اورمقصد
کے لیے استعمال نہیں کی جاتیں،
تو یہ گناہ پر تعاون ہے اور گناہ
پر تعاون بھی گناہ ہوتا
ہے۔
ہربے فائدہ وفضول کھیل کی ممانعت کے بارے میں المعجم الاوسط
میں ہے:”قال رسول اللہ صلى
اللہ عليه وسلم: كل لهو يكره إلا ملاعبة الرجل امرأته، ومشيه بين الهدفين، وتعليمه
فرسه “ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:ہر فضول کام
مکروہ ہے، سوائے یہ کہ مردکا
اپنی عورت سے کھیلنا(یعنی
بیوی سے دل لگی کرنا)اوردو ہدفوں کے درمیان نشانہ لگانا یعنی تیزاندازی کرنا اوراپنے
گھوڑے کوشائستگی سکھانا۔ (المعجم الاوسط،ج07،ص170،مطبوعہ دارالحرمین،القاھرہ)
درمختارو ردالمحتار میں ہے:”وکرہ کل لھو(ای:کل لعب وعبث ،فثلاثۃ بمعنی
واحد)۔لقولہ علیہ الصلاۃ
والسلام:کل لھو المسلم حرام الاثلاثۃ:ملاعبتہ اھلہ وتادیبہ لفرسہ ومناضلتہ بقوسہ“ترجمہ:اورہرفضول(
یعنی بیکار،بے فائدہ
،پس تینوں ایک
ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں)کھیل مکروہ
ہے۔ نبی پاک صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے اس
فرمان کی وجہ سےکہ
مسلمان کاہر کھیل حرام
ہے،سوائے تین کھیلوں کے:(1)شوہرکااپنی
بیوی سے کھیلنایعنی دل لگی کرنا(2)اوراپنے گھوڑے کوشائستگی سکھانا(3) اورتیراندازی
کرنا۔(درمختاروردالمحتار،ج09،ص651،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے:” کنکیا(پتنگ)اڑانے میں وقت،مال کاضائع کرناہوتاہے،یہ بھی گناہ
ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج24،ص659،مطبوعہ
رضافاؤنڈیشن،لاھور)
احکامِ
شریعت میں ہے:” کنکیا(پتنگ)اڑانا لہولعب
ہےاورلہوناجائزہے،حدیث میں ہے:’’ کل لھو المسلم حرام الافی ثلث۔مسلم کے لیے
کھیل کی چیزیں
سوائے تین چیزوں کے سب حرام ہیں۔“(احکامِ شریعت،حصہ اول،صفحہ58،مطبوعہ مشتاق بک
کارنر)
لوگوں سے ضررکودورکرنے کے بارے میں نبی
کریم صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:’’لا ضرر ولا ضرار،من ضار ضرہ اللہ،ومن شاق شق اللہ علیہ‘‘ترجمہ:نہ ضررلو،نہ ضرردو،جوضرردے اللہ عزوجل اس کوضرردے
اورجومشقت کرے اللہ عزوجل اس
پر مشقت ڈالے ۔(سنن
الدارقطنی،ج4،ص51،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
خودکوذلت
میں ڈالنے کے ناجائزہونے
کے بارے میں جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ اورمشکوۃ المصابیح میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:’’ قال رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی
للمومن ان یذل نفسہ‘‘ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے ارشادفرمایا:مومن
کے لیے جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی
میں مبتلاکرے ۔ (جامع الترمذی،ابواب الفتن،باب ماجاء فی النھی عن سب
الریاح،ج02،ص498،مطبوعہ لاھور)
امام محمودبن احمدعینی علیہ رحمۃ
اللہ القوی لکھتے ہیں:’’اذلال النفس حرام‘‘ترجمہ:نفس کوذلت پرپیش کرناحرام ہے۔ (البنایہ
شرح الھدایہ،کتاب النکاح
،ج04،ص619،مطبوعہ کوئٹہ)
خلافِ قانون امرکاارتکاب
کرنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضاخان
علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں :’’ایسے امر کاارتکا
ب جو قانوناً،ناجائز ہواور
جرم کی حد تک پہنچے، شرعابھی
ناجائز ہوگا کہ
ایسی بات کے لیے جر م قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لیے
پیش کرناشرعاًبھی
روانہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج20،ص192،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)
ناجائز کام پر مددکرنے کی ممانعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ
وَالْعُدْوَانِ﴾ترجمۂ کنز الایمان:’’اور گناہ اورزیادتی پر باہم مدد نہ دو۔‘‘(القرآن،سورۃالمائدہ،آیت 2)
مذکورہ بالاآیت کے تحت امام ابوبکراحمدالجصاص
رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ
وَالْعُدْوَانِ﴾نھی عن معاونۃ غیرناعلی
معاصی اللہ تعالی‘‘ترجمہ:آیت کریمہ:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ
وَالْعُدْوَانِ﴾میں اللہ
تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مددکرنے سے منع کیاگیاہے۔(احکام
القرآن،ج2،ص429،مطبوعہ کراچی)
شیخ القرآن مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:”یہ انتہائی
جامع آیت مبارکہ ہے…گناہ اورظلم میں
کسی کی بھی مددنہ کرنے کاحکم ہے۔کسی کاحق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا،رشوتیں
لے کرفیصلے بدل دینا،جھوٹی
گواہیاں دینا،بلاوجہ کسی مسلمان کوپھنسادینا،ظالم
کااس کے ظلم میں ساتھ دینا،حرام
وناجائزکاروبارکرنے والی
کمپنیوں میں کسی بھی طرح
شریک ہونا،بدی کے اڈوں
میں نوکری کرنا،یہ
سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اورناجائزہے۔‘‘(تفسیرصراط الجنان،ج02،ص424،مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
درمختارمیں ہے:’’فاذاثبت کراھۃ لبسھاللتختم ثبت کراھۃ بیعھاوصیغھالمافیہ
من الاعانۃ علی مالایجوز،وکل
ماأدی الی
مالایجوزلایجوز‘‘ترجمہ:جب ان (مردکے لیے سونے اور مردوعورت کے لیے پیتل اورتانبے)کی چیزوں کی انگوٹھیاں
پہننے کی ممانعت ثابت ہوگئی،تواس کے بیچنے اوربنانے کی کراہت بھی
ثابت ہوگئی، کیونکہ
اس میں ناجائزکام پرمددکرناہے
اورہروہ کام جوناجائزکام کی طرف لے جائے ،وہ بھی ناجائزہوتاہے۔(درمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل
فی اللبس،ج09،ص595،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے:’’(سوال کیاگیاکہ)ایک
شخص لوہے اورپیتل کازیوربیچتاہے اورہندو
مسلمان سب خریدتے ہیں اورہرقوم
کے ہاتھ وہ بیچتاہے
،غرض کہ یہ وہ جانتاہے کہ جب مسلمان خریدکریں گے،تواس کوپہنیں گے،توایسی
چیزوں کافروخت کرنامسلمان کے ہاتھ جائزہے کہ نہیں؟ توآپ
نے جواباًارشادفرمایا:’’مسلمان کے ہاتھ بیچنامکروہِ تحریمی(ناجائزوگناہ )
ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج22،ص129،مطبوعہ
رضافاؤنڈیشن،لاھور)
جس چیز
کی ذات کے ساتھ معصیت قائم ہو،اس چیزکی بیع کے مکروہ تحریمی
ہونے کے بارے میں درمختارمیں
ہے:”ان ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ
بیعہ تحریما(لتعلیلھم بالاعانۃ
علی المعصیۃ)عبارۃ
القوسین لردالمحتار “ترجمہ:بیشک جس کے عین یعنی ذات کےساتھ معصیت(گناہ) قائم ہو،تو اس کی بیع مکروہ تحریمی
ہے(یعنی ناجائزوگناہ ہے)،کیونکہ فقہائے کرام نے اس کی علت یہ بیان
فرمائی کہ یہ گناہ پر مدد کرنا ہے(قوسین
میں ردالمحتارکی عبارت
ہے)۔(درمختاروردالمحتار،کتاب
الجھاد،باب البغاۃ،ج06،ص309،مطبوعہ کوئٹہ)
عین
کے ساتھ معصیت قائم ہونے
کے معنی کے بارے میں جدالممتارمیں
ہے:’’فاعلم ان معنی ماتقوم المعصیۃ
بعینہ ان یکون فی اصل وضعہ موضوعا للمعصیۃ
او تکون ھی المقصود العظمی
منہ۔۔۔۔۔۔۔فماکان
مقصودہ الاعظم تحصیل معصیۃ معاذاللہ
تعالی کان شراؤہ دلیلاواضحاعلی
ذلک القصدفیکون بیعہ اعانۃ علی المعصیۃ‘‘ترجمہ:
تم یہ بات سمجھ لو کہ عین کے ساتھ معصیت قائم ہونے کا مطلب
یہ ہے کہ وہ اپنی اصل وضع میں
ہی معصیت کے لیے بنائی
گئی ہویااس سے مقصود اعظم ہی معصیت ہو ،پس جس شے کامقصوداعظم ہی گناہ کاحصول ہو،معاذاللہ تعالی،تواس کاخریدناگناہ کے
قصدپرواضح دلیل
ہے، پس اس شے کابیچناگناہ
پرمددکرناہے۔(جدالممتار،کتاب الحضروالاباحۃ،فصل
فی البیع،ج7،ص76،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
مذکورہ بالادرمختار،جدالممتاراورفتاوی رضویہ
کی عبارات سے معلوم ہواکہ ہروہ
چیز جوناجائزکام
کی طرف لے جانے میں متعین
ہویاجس کامقصوداعظم
ہی گناہ کاحصول ہو،توان کوبنانااورفروخت کرنا،مکروہ تحریمی ناجائزوگناہ ہے۔اوریہ
بات بالکل واضح ہے کہ پتنگ بنانے اورفروخت کرنے کا اصلِ مقصد
و استعمال اڑانا ہی ہوتا
ہے،اس کے علاوہ کسی اورکام میں پتنگ استعمال
نہیں ہوتی،لہذاجس طرح مردوں
کے لیے سونے کی انگوٹھیاں
بنانااورفروخت کرناپہننے والے کے گناہ پرمددکرنے
کی وجہ سے گناہ ہے،
اسی طرح پتنگ بنانااورفروخت
کرنااڑانے والے کی گناہ پرمددکرنے کی وجہ سے گناہ ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟