Online Order Par Matke Aur Gamle Bechne Ka Kya Hukum Hai ?

آن لائن آرڈر پر مٹکے اور گملے تیار کر کے بیچنے کا حکم

مجیب:    ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12269

تاریخ اجراء:  30ذوالقعدۃ الحرام 1443 ھ/30 جون 2022 ء                                                                                                                

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی عورت گھر میں گملے اور مٹکوں پر ڈیزائن اور پینٹنگ کرکے online delivery کے ذریعہ بیچے، کبھی کھاد مٹی خرید کر اس میں پھول لگا کر گملے کو بیچے، گملے اور پینٹس اس کے پاس پہلے سے ہوں، لیکن تیار کرنے والی کچھ چیزیں آرڈر لینے کے بعد لینی پڑیں، جب کوئی آرڈر آئے تو قیمت وغیرہ پہلے سے طے کرلی جائے، پھر پروڈکٹ تیار کرکے بیچے، تو اس طرح سے کاروبار کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آردڑ پر کوئی چیز تیار کروانا بیع استصناع کہلاتا ہے اور بیع کا یہ طریقہ  صرف ان ہی چیزوں میں جائزہے ،جن چیزوں کو عادتاًآرڈر پر تیار کروانا لوگوں میں معروف ہو،نیزاس صورت میں چیز کا پہلے سے ملکیت میں ہونا ضروری نہیں ۔ موجودہ زمانہ میں گھر،دوکان  وغیرہ  کی زیب و آرائش وغیرہ جائز مقاصدکے لئے آرڈر پر ڈیزائن والے مٹکے اور گملے تیار کروانا لوگوں میں معروف ہے ،اس لئےخرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ کار اختیار کرنا جائز ہے۔البتہ اس میں چند چیزوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:

   (1)چیز جتنی رقم میں بیچی جارہی ہےفریقین اس رقم کی مقدار پر اتفاق کریں کہ اتنے کی چیز ہوگی۔

   (2)جو مٹکے اور گملے آرڈر پر تیار کر کے بیچے جائیں گے ان کی صفات ایسے انداز میں بیان کرنا لازم ہوگا ،جس سے مبیع کی پہچان حاصل ہوجائےاور جہالت دور ہوجائے،تاکہ بعد میں منازعت(جھگڑا)نہ ہو، یعنی یہ واضح ہو کہ مٹکے اور گملے کس طرح کی مٹی سے تیار ہوں  گے،ان مٹکوں اور گملوں کا معیار کیا ہوگا ،ان کی ہیئت ،حجم اور سائز کتنا ہوگا،ان پر رنگ ، نقش و نگار ہوگا یا نہیں ہوگا ، اگر ہوگا ،تو کس طرح  کا رنگ ہوگا، نقش و نگار کس انداز کے ہوں گے(یہ بات واضح رہے کہ نقش و نگار میں کسی جاندار کی تصویر بنانا ناجائز و گناہ ہے)، گملوں میں کھاد اور پھول کس نوعیت کے ہوں گے ، گملے اور مٹکے ایک سے زیادہ تعداد میں ہیں ، تو ان کی مقدار بھی معلوم ہو۔

   (3)چونکہ کام آن لائن ڈیلیوری کا ہے ،اس لئے سامان کس جگہ پہنچایا جائے گا، یہ بھی معلوم ہو۔

   (4)ڈیلیوری چارجز اگر الگ سے لاگو ہوں گے ،تو وہ بھی   پہلے سے طے ہوں ۔

   مجلۃ الاحکام میں ہے:”کل شیئ تعومل استصناعہ یصح فیہ الاستصناع علی الاطلاق“یعنی ہر وہ چیز جس کو آرڈر پر تیار کروانےکا تعامل ہو، اس میں علی الاطلاق استصناع درست ہے۔(مجلۃ الاحکام مع شرحہ، جلد1 ، صفحہ 423،مطبوعہ:بیروت)

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے:”(فیما فیہ تعامل) الناس  (کخف وقمقمۃ وطست )“یعنی (استصناع جائز ہے) ان چیزوں میں جن میں لوگوں کا تعامل ہو جیسے موزہ ،قمقمہ(تانبہ یا پیتل کا صراحی نما برتن جو زینت کے لئے میز وغیرہ پر سجایا جاتا ہے)،طشت۔(تنویر الابصار و درمختار، جلد7،صفحہ 501،مطبوعہ:بیروت)

   استصناع چونکہ بیع ہے ،لہٰذا اس کے صحیح ہونے کے لئے ثمن کا معلوم ہونا ضروری ہے،چناچہ جن شرائط کا لحاظ ہر بیع میں ضروری ہے ،ان کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”معلومیۃ المبیع ومعلومیۃ الثمن بما یرفع المنازعۃ“یعنی مبیع و ثمن کا اس طور پرمعلوم ہونا کہ جو جھگڑے کو اٹھا دے۔ (ردالمحتار، جلد7،صفحہ 14، مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”استصناع ہر حال میں بیع ہی ہے۔۔۔اور بیع ہرگز ایسی جہالتِ ثمن کا تحمل نہیں کرسکتی کہ اتنی مدت ہو،تو یہ قیمت اور اتنی ہو،تو وہ“ (فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ599، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بیع استصناع میں مبیع کا وصف اس انداز سے بیان کیا جائے کہ مبیع کی پہچان حاصل ہوجائے اور جہالت دور ہوجائے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:”انما جاز الاستصناع فیما للناس فیہ تعامل اذا بین وصفا علی وجہ یحصل التعریف“یعنی جن چیزوں میں لوگوں کا تعامل ہو، ان میں استصناع اس وقت جائز ہوگا جب اوصاف ایسے انداز میں بیان کردئیے جائیں جس سے معرفت حاصل ہوجائے۔(فتاوی ھندیہ، جلد3،صفحہ 207،مطبوعہ : پشاور)

   ردالمحتار میں بدائع سے منقول ہے:”من شروطہ:بیان جنس المصنوع ونوعہ وقدرہ وصفتہ وان یکون مما فیہ تعامل “یعنی استصناع کی شرائط میں سے یہ ہے کہ مصنوع کی جنس ، نوع، مقدار اور صفت بیان ہو اور وہ چیز ان میں سے ہو،جن کے استصناع میں تعامل ہے ۔(رد المحتار ،جلد7،صفحہ 501، مطبوعہ:بیروت)

   شرح مجلہ للاتاسی میں ہے:”یلزم بیان الجنس الذی یعمل منہ الطشت حدیدا او نحاسا ، ونوع الحدید ومقدار حجمہ ولونہ وکونہ منقوشا او لا الی غیر ذلک بوجہ یرفع الجھالۃ لئلا یؤدی الی المنازعۃ“یعنی جس جنس سے کام کیا جائے وہ جنس بیان کرنالازم ہے یعنی طشت لوہے کا ہوگا یا تانبے کا۔ لوہے کی قسم ، اس کے حجم کی مقدار ،اس کا رنگ بیان کرنالازم ہے  اور اس چیز کو بیان کرنابھی لازم ہے کہ وہ نقش و نگار والا ہوگا یا نہیں،یہ سب باتیں ایسے انداز میں بیان ہوں ،جو جہالت کو دور کردے تاکہ جھگڑا نہ ہو۔ (شرح المجلۃ، جلد1، صفحہ 405، مطبوعہ:کوئٹہ)

   مجلۃ الاحکام میں ہے:”مایباع محمولا علی الحیوان کالحطب والفحم تکون اجرۃ نقلہ وایصالہ الی بیت المشتری جاریۃ علی حسب عرف البلدۃ وعادتھا“یعنی جو چیزیں جانوروں پر لاد کر بیچی جاتی ہیں جیسے لکڑیاں ،کوئلہ ،تو اس کو منتقل کرنے اور مشتری کے گھر تک پہنچانے کی اجرت شہر کے عرف  و عادت کے مطابق جاری ہوگی۔(مجلۃ الاحکام مع شرحہ، جلد 1،صفحہ 221، مطبوعہ:کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ایک ماہ سے کم کی مدت ہو، تو استصناع ہے اور اس کے جواز کے لئے تعامل ضروری ہے یعنی جس کے بنوانے کا رواج ہے“(بھارِ شریعت، جلد2،حصہ 11،صفحہ 808، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”کسی سے کوئی چیز اس طرح بنوانا کہ وہ اپنے پاس سے اتنی قیمت کو بنادے یہ صورت استصناع کہلاتی ہے کہ اگر اس چیز کے یوں بنوانے کا عرف جاری ہے اوراس کی قسم وصفت وحال وپیمانہ وقیمت وغیرہا کی ایسی صاف تصریح ہوگئی ہے کہ کوئی جہالت آئندہ منازعت کے قابل نہ رہے ۔۔۔۔ تو یہ عقد شرعاً جائز ہوتا ہے اور اس میں بیع سلم کی شرطیں مثلاً روپیہ پیشگی اس جلسہ میں دے دینا یا اس کا بازار میں موجود رہنا یا مثلی ہونا کچھ ضرور نہیں ہوتا“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ597۔598، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم