Online Cheez Dekh Kar Wapsi Na Hone Ki Shart Ke Sath Khareedna Kaisa?

آن لائن چیز دیکھ کر واپسی نہ ہونے کی شرط کے ساتھ خریدنا کیسا؟

مجیب:ابو سعید محمد نوید رضا عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-5778

تاریخ اجراء:04صفر المظفر 1445ھ/22  اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے کپڑے کے ایک بڑے برانڈ کے اسٹور  کی ویب سائٹ سے ایک سوٹ پسند کر کے اس کا آرڈر دیا  اور اگلے دن بذریعہ کوریئر وہ سوٹ اس کے گھر پہنچ گیا۔تصویر میں سوٹ دیکھ کر پسند کیا تھا  لیکن جب سوٹ سامنے آیا  تھا ،تو وہ زید کو پسند نہیں آیا۔

   اسٹور نے اپنی سائٹ پرواضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ سوٹ  ڈِلیوَر ہونے کے بعد صرف ڈفیکٹو (یعنی عیب دار) ہونے کی صورت میں واپس ہو گا ۔ پسند نہ آنے کی صورت میں ڈلیور ہونے کے بعد   واپس نہیں ہو گا ۔ اس لیے پکچر تمام اینگلز سے اچھی طرح دیکھ لیں۔

   اسے قبول کرنے  کے بعد ہی خریداری کا آپشن  مکمل ہوتا ہے۔اس صورت میں زید کو سوٹ واپس کرنے کا شرعاً اختیار ہو گا یا نہیں؟

   نیز اسٹور پر فون کر کے معلومات کی تھی۔ہمارا مطلوبہ سوٹ اسٹور پر موجود تھا۔ تب ہی ڈلیوری کا آرڈر دیا تھا۔ مزید یہ کہ واپس بھیجنے پر کورئیر کے جو اخراجات آئیں گے وہ زید کے ذمہ ہوں گے یا اسٹور کے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورتِ مسئولہ میں زید کو خیار رؤیت  کی وجہ سے سوٹ واپس کرنے کا اختیار ہے  اگرچہ زید  نے  عدم واپسی کے آپشن کو قبول کر لیا ہو کہ تصویر دیکھنا اصل چیز کو دیکھنے کی مثل نہیں ہے، لہٰذا جب اصل سوٹ اس نے نہیں دیکھا اور جب اس کے سامنے آیا اور دیکھنے پر پسند نہیں آیا، تو  شرعاً وہ اس سوٹ کو واپس کرسکتا ہے۔

   حدیث پاک میں ہے:’’من اشتری شیئاً لم یرہ فھو بالخیار اذا راہ ، ان شاء اخذہ و ان شاء ترکہ‘‘ جس نے ایسی چیز خریدی جو اس نے نہیں دیکھی ،تو اسے اختیار حاصل ہے جب اسے دیکھے، اگر چاہے، تو اسے لے لے اور اگر چاہے، تو چھوڑ دے۔(سنن بیھقی،ج5،ص268،مطبوعہ دار الفكر ، بیروت )

   درمختار میں ہے:’’او رؤیۃ دھن فی زجاج لوجود الحائل‘‘(خیار رؤیت حاصل ہو گا) تیل شیشے کی بوتل میں دیکھنے سے ،حائل کے پائے جانے کی وجہ سے۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:’’ قولہ:(لوجود الحائل) فھو لم یر الدھن حقیقۃ ۔ و فی التحفۃ : لو نظر فی المرآۃ فرای المبیع ، قالوا: لا یسقط خیارہ ، لانہ ما رای عینہ بل مثالہ‘‘ماتن کا قول(حائل کے پائے جانے کی وجہ سے۔)کہ اس نے حقیقتاً تیل کو نہیں دیکھا۔ تحفہ میں ہے : اگر آئینے میں نظر کی اور مبیع کو دیکھا  ،تو علماء فرماتے ہیں کہ اس کا خیار ساقط نہیں ہو گا کہ اس نے چیز کا عین نہیں دیکھا ،بلکہ اس کی مثال دیکھی ہے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار،ج7،ص155،مطبوعہ کوئٹہ)

   ہندیہ میں ہے:’’و لو  رای ما اشتراہ من وراء زجاجۃ او فی مرآۃ او کان المبیع علی شفا حوض فنظرہ فی الماء فلیس ذلک برؤیۃ و ھو علی خیارہ کذا فی السراج الوھاج‘‘جو چیز اس نے خریدی اگر وہ چیز شیشے کے پار سے دیکھی یا آئینے میں دیکھی یا مبیع حوض کے کنارے پر تھی اور اس نے اسے پانی میں سے دیکھا، تو یہ رؤیت(دیکھنا) نہیں ہے ۔ خریدار اپنے خیار پر باقی ہے ۔ ایسے ہی سراج وہاج میں ہے۔(ھندیہ،ج3،ص62،مطبوعہ کوئٹہ)

   نیز  مشتری کے سوٹ کو  بلا حائل دیکھے بغیر بائع  کی طرف سے  ناقابل واپسی ہونے  کی شرط باطل  ہے، اگرچہ مشتری نے یہ شرط قبول کر لی ہو کہ خیار رؤیت دیکھنے سے پہلے حاصل نہیں ہوتا  اور خیار رؤیت کے ثابت ہونے سے پہلے اسے ساقط  کرنے کی  شرط خود باطل ہے ،لہذا بائع کا مشتری کی رؤیت سے قبل ناقابل واپسی ہونے  کی شرط رکھنا اور مشتری کا قبول کرنا باطل و کالعدم ہے۔ جب  مشتری سوٹ دیکھے گا، تو  بہرحال اسے خیار رؤیت حاصل ہو گا ۔ اب دیکھنے کے بعد چاہے، تو بیع نافذ کر دے یا اسے رد کر دے۔

   چنانچہ ہدایہ میں ہے: (إذا قال رضيت ثم رآه له أن يرده )لأن الخيار معلق بالرؤية لما روينا فلا يثبت قبلها‘‘جب مشتری نے کہا،میں راضی ہوا،پھر مبیع کودیکھا،تواس کےلیےمبیع کو واپس کرنا جائزہے،اس لیےکہ خیار،رؤیت کے ساتھ معلق ہے،اس بناپرجوہم نےروایت کیا،لہذا دیکھنےسےپہلےخیار ثابت نہیں ہوگا۔

   اس کے تحت فتح القدیر میں ہے:’’ (و کذا اذا قال رضیت) الی اخرہ و کذا لہ الخیار اذا رآہ یعنی اذا قال رضیت کائناً ما کان قبل الرؤیۃ ثم راہ لہ ان یرد لان ثبوت الخیار معلق فی النص بالرؤیۃ حیث قال فھو بالخیار اذا رآہ و المعلق بالشرط عدم قبل وجودہ و الاسقاط لا یتحقق قبل الثبوت ‘‘ (اور اسی طرح جب کہا کہ میں راضی ہوں )آخر تک ۔ اور اسی طرح اس کے لیے خیار ہے، جب دیکھے یعنی جب  اس نے  دیکھنے سے پہلے کہا کہ جو بھی ہو  میں راضی ہوں،  پھر  دیکھا، تو اسے واپس  کرنا ،جائز ہے کیونکہ نص میں   خیار کا ثبوت  دیکھنے پر معلق ہے کہ فرمایا: تو اسے خیار ہے، جب وہ چیز دیکھے ۔ اور جو شرط پر معلق ہو، وہ اس کےپائے جانے سے پہلے عدم ہے  اور اسقاط،  ثبوت سے پہلے متحقق  نہیں ہوتا ۔( فتح القدیر ،ج05،ص532،مطبوعہ کوئٹہ)

   امام ابن ہمام رَحِمَہُ اللہُ تعالی کے قول پر علامہ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’ای: اذا کان الخیار معلقاً بالرؤیۃ کان عدماً قبلھا فلا یصح اسقاطہ بالرضا ‘‘ یعنی جب خیار دیکھنے پر معلق  ہے، تو اس سے پہلے عدم ہے ،تو رضا سے اس کو ساقط کرنا درست نہیں ۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،ج7،ص148،مطبوعہ کوئٹہ)

   ہدایہ کی عبارت  کے تحت عنایہ میں ہے:’’ تفريع على مسألة القدوري: يعني كما أن له الخيار إذا لم يقل رضيت فكذا إذا قال ذلك ولم يره ثم رآه، لأن الخيار معلق بالرؤية بالحديث الذي رويناه والمعلق بالشيء لا يثبت قبله لئلا يلزم وجود المشروط بدون الشرط، ولأنه لو لزم العقد بالرضا قبل الرؤية لزم امتناع الخيار عندها، وهو ثابت بالنص عندها فما أدى إلى إبطاله فهو باطل‘‘قدوری کے مسئلہ پرتفریع ہے،یعنی مشتری جب "میں راضی ہوا"نہ کہےتب بھی اسے خیاررؤیت حاصل ہوتاہے،اسی طرح جب یہ کہہ دے،پھرمبیع کودیکھے،توبھی اختیارحاصل ہوگا،اس لیے کہ حدیث پاک میں خیار،رؤیت کے ساتھ معلق ہے،اورجو کسی چیزکے ساتھ  معلق ہو،وہ اس شےکےوجودسےپہلےثابت نہیں ہوتا،ورنہ مشروط کاشرط کےبغیروجودلازم آئےگا، اوراس لیےکہ اگررؤیت سے قبل عقدرضامندی کےساتھ لازم ہوجائے،توخیارکاامتناع لازم ہوگا،حالانکہ خیارنص سے ثابت ہے،توجوچیزخیارکےابطال کی طرف لےجائے،وہ خودباطل ہوگی۔(عنایہ علی ھامش فتح القدیر،ج05،ص532،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:’’ اگر مشتری نے دیکھنے سے پہلے اپنی رضامندی کا اظہار کیا یا کہدیا کہ میں نے اپنا خیار باطل کر دیا جب بھی دیکھنے کے بعد فسخ  کرنے کا حق حاصل ہے کہ یہ خیار ہی دیکھنے کے وقت ملتا ہے، دیکھنے سے پہلے خیار تھا ہی نہیں ،لہذا اس کو باطل کرنے کے کوئی معنی نہیں۔‘‘(بھارشریعت،ج2،حصہ11،ص662، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   البتہ سوٹ واپس بھجوانے کے اخراجات زید کے ذمہ پر ہیں ،چاہے وہ واپس کورئیر کے ذریعے بھجوائے یا کسی اور ذریعے سے۔ہندیہ میں ہے:’’و مؤنۃ رد المبیع بعیب او بخیار شرط او رؤیۃ علی المشتری‘‘خیارِ عیب، خیارِ شرط اور خیار رؤیت کی وجہ سے مبیع لوٹانے کے اخراجات خریدار کے ذمہ پر ہیں۔ (ھندیہ،ج3،ص61،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم