مجیب: محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: UK-78
تاریخ اجراء: 13
رمضان المبارک1443 ھ/15 ا
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ جائز ہے یا نہیں؟اور
اس کا ممبر بننا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نیٹ ورک مارکیٹنگ
کرنے والی کمپنیوں کا ممبر
بنن
نیٹ ورک مارکیٹنگ کا تعارف:
·
نیٹ
ورک مارکیٹنگ کوملٹی لیول
مارکیٹنگ (MultiLevel Marketing) بھی کہتے ہیں۔
مصنوعات فروخت کرنے کے اس طریقہ کار میں ایک آدمی پہلے کمپنی کا ممبر بنتا ہے اور کمپنی
سے اس کی مصنوعات خریدتا ہے۔ پھر وہ اپنی کوشش
سے مزید دو افراد کوممبر بناتا ہے
اور یہ دونوں بھی کمپنی سے خریداری کرتے ہیں
اور ان دونوں میں سے ہر ایک پھر آگے دو دو افراد کو ممبر بناتے ہیں
۔ یوں ہر ممبر اپنی کوشش سے مزید دو دو ممبر بناتا ہے اور
نیچے ایک چین اور نیٹ ورک بنتا جاتا ہے۔
·
ہر
شخص جو دو افراد کو ممبر بناتا ہے، تو کمپنی اس شخص کو ممبر بنانےکا
مخصوص کمیشن دیتی ہے ۔ یہ کمیشن ممبر بنانے والے فرد کے علاوہ اس سے او
·
کمپنی
کا ممبر بننے کے لیے عموماً کچھ نہ کچھ رجسٹریشن فیس دینی پڑتی ہے۔ نیز
مخصوص مقدار میں کمپنی کی
چیزیں خریدنی ہوتی ہیں۔ اس کے
بغیر کوئی بھی ممبر نہیں بن سکتااور بعض اوقات کمیشن
حاصل کرنے کے لیے بھی ہرماہ یا
ہر سال کچھ خریداری
کرنا شرط ہوتا ہے۔
·
ایسی
کمپنیوں کے طریقہ کار کا بنیادی ڈھانچہ یہی
ہوتا ہے، جو او
نیٹ ورک مارکیٹنگ
کی شرعی خرابیاں:
اس نظام میں بہت سی
شرعی خرابیاں ہیں جن کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:
(1)رشوت:
کمپنی کا ممبر بننے کے لیے سب سے پہلے رجسٹریشن فیس کے
اور رشوت دینا یا لینا حرام ا ور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم ارشاد فرماتے ہیں ’’الراشی والمرتشی فی
النار‘‘ترجمہ: رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی
ہیں۔( المعجم الاوسط ، ج2، ص295، دار الحرمین،
قاھرہ)
(2) قمار(جُوا) :
عموماً
خریدار کو کمپنی کی مصنوعات
میں رغبت نہیں ہوتی،بلکہ ممبر سازی و کمیشن کا حق دار بننے کے لیے یہ خریداری
کرتا ہے اور اس کے لیے وہ کمپنی
کی سستے معیار کی چیزیں بھی غبن فاحش
کی حدتک مہنگی خریدنے کو تیار ہو جاتا ہے اور اسی
مقصد کے لیے وہ شروع میں رجسٹریشن کی فیس بھی
دیتا ہے، حالانکہ کوئی بھی
عقلمند شخص جو ممبرسازی کا ذہن نہیں رکھتا وہ اپنا سرمایہ ایسی
جگہوں
تو حاصل یہ
ہے کہ کمیشن حاصل کرنے کی
لالچ میں خریدار ، ممبر شپ کی فیس اور انتہائی مہنگی
چیزیں خریدنے کی شکل
میں اپنا کثیر سرمایہ داؤ (Risk)
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ
مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ “ترجمہ کنز العرفان:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور
قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں،
تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(سورۃ المائدۃ، آیت 90)
امام اہلسنت امام احمد رضا
خان علیہ رحمۃ الرحمن اس سے ملتی جلتی ایک صورت کہ
جس میں ایک (بے قیمت) ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا ، کے بارے میں
ارشاد فرماتے ہیں:” حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد
ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں ہر گز بیع و شراوغیرہ کوئی عقد شرعی
نہیں،بلکہ صرف طمع کے جال میں لوگوں کو پھانسنا اور ایک امید
موہوم
اور اسی طرح کی
صورت کے بارے میں حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ’’یہ جوا اور حرام ہے
کہ ایک روپیہ دیکر اس رقم کثیر کے ملنے کی خواہش
ہوتی ہے اور اس کے ملنے نہ ملنے دونوں کا احتمال ہوتاہے ، اگر فارم فروخت ہو
گئے ،تو رقم ملے گی ورنہ روپیہ گیا ، اس میں شرکت حرام ہے
۔“ (فتاوی امجدیہ، ج4، ص234، مکتبہ
رضویہ، کراچی)
جید مفتیان
کرام و معتمد علماء
(3) ضرر و اضرار(یعنی نقصان میں پڑنا اور ڈالنا)اور
دھوکا دہی:
ایسی کمپنیوں کی اشیاء عموما اپنے معیار
کے لحاظ سے کم دام کی ہوتی ہیں، لیکن عام خریدار
جنہیں اس کی
اور کمیشن کے
لالچ میں کم داموں والی چیزیں غبن فاحش کی حد تک
مہنگی خرید لینا اپنا نقصان بھی ہے ۔ خودضرر (
نقصان )میں پڑنا اور دوسروں کو ضرر میں ڈالنادونوں اسلامی تعلیمات کے
بالکل خلاف ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم فرماتے ہیں:’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام ‘‘ترجمہ: اسلام میں نہ ضررہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا
۔ (المعجم الاوسط ، ج5، ص283، دار الحرمین، قاھرہ)
(4) شروط فاسدہ:
اس نظام میں شامل
ہونے والا فرد کمپنی کے ساتھ دو طرح کا عقد /معاہدہ کرتا ہے۔(1)عقد
بیع: یعنی وہ کمپنی
کی مصنوعات خریدتا ہے۔ (2) عقد اجارہ :یعنی
وہ لوگوں کو کمپنی کا ممبر بنوانے
کے بدلے میں کمیشن حاصل کرتا ہے۔
لیکن یہ دونوں عقد ایک
دوسرے کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں، وہ یوں کہ کمپنی ممبر سازی
کا حق دینے کےلیے خریداری کرنے کی شرط رکھتی ہے یہ ”اجارہ بشرط بیع
“ہےاور خریدار کی طرف سے گویا خریداری اس شرط
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ولو
قال أبیعک ھذا بثلثمائۃ علی أن یخدمنی
سنۃ کان فاسدا لأن ھذا بیع شرط فیہ الإجارۃ مختصرا
‘‘ترجمہ:اگر کسی نے کہامیں نے یہ (غلام) تجھے تین
سو کے بدلے اس شرط
(عالمگیری،کتاب البیوع،
الباب العاشر، ج3،ص135، دار الفکر ، بیروت)
تنویر الابصار اور بحر الرائق ،ج7، ص311وغیرہ میں
ہے، واللفظ للاول:’’تفسد الإجارۃ
بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد‘‘ترجمہ:
مقتضائے عقد کے خلاف شرائط لگانے سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے ۔ (تنویر الابصار ، کتاب الاجارہ، ج6،ص46، دار الفکر، بیروت)
(5)خلاف شرع کمیشن
کا طریقہ کار:
ناجائز ہونے کی ایک
اور وجہ کمیشن کے طریقہ
کار کا فقہی قوانین شرعیہ کے خلاف
ہونا بھی ہے ،کیونکہ
کمیشن ایجنٹ اس وقت کمیشن یا اجرت کا مستحق ہوتا ہے، جب
وہ گاہک لانےمیں قابل معاوضہ کام اور محنت و کوشش کرے ۔ اگر اس نے ایسا
کام نہ کیا، تو اسے کمیشن لینے کا حق نہیں اگرچہ اس نے دو
چار باتیں کر کے کسی کو تیار کر لیا ہو۔
امام اہلسنت احمد رضا
خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’
اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی
طرف سے تھی، بائع کے لیے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض
زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا :آقا
کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی
چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے
روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع
سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی
ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے،
مشورہ دینے کی۔‘‘(فتاوی
رضویہ ،ج19، ص 453، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
یونہی جس آدمی کو ممبر بنانے کے لیے اس نے
محنت نہیں کی ،بلکہ کسی دوسرے فرد نے کی ہے، تو اس
کا کمیشن وہ دوسرا فرد ہی لے
سکتا ہے، پہلا فرد جس نے کوئی محنت نہیں کی اس کو کمیشن
کا مستحق نہیں بنایا جا سکتا، مثلا: زید نے بکر کوقابل معاوضہ محنت کر کے ممبر بنوا دیا
اور پھر بکر نے بھی اسی طرح
خالد کوممبر بنوا دیا،تو شرعی طور
لیکن ملٹی لیول
مارکیٹنگ میں کمیشن دینے کا طریقہ اس شرعی
ضابطے کے متصادم و خلاف ہونے کی وجہ
سے ناجائز ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟