Mitti Ke Bartan Ki Kharid o Farokht Ka Hukum

مٹی کے برتنوں کی خرید و فروخت کا حکم؟

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2425

تاریخ اجراء: 20رجب ا لمرجب1445 ھ/01فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا مٹی کے برتنوں کی خریدو فروخت درست ہے ؟ میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ مٹی کی بیع درست نہیں ہوتی ۔اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں درست کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مٹی کے برتنوں کی خریدو فروخت شرعا جائز و درست ہے ، کہ مٹی  کے برتن مال  ہیں اور شرعی لحاظ سے ان پر عقد بیع بھی   درست ہے ،انہیں مبیع بھی بنایا جاسکتا ہے ،باقی آپ نے جو پڑھا ہے کہ مٹی کی بیع درست نہیں،تو اس  سے مراد ایسی معمولی سی مٹی ہے، جو مال بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ،جسے بیچا اور خریدا نہیں جاتا جیسا کہ ایک مٹھی خاک کی بیع کرنا کہ اسے کوئی بھی قابل بیع چیز نہیں سمجھتا ،ہاں اگر کثیر مٹی کی بیع کی جائے ، یا مٹی کے برتن ،اینٹیں وغیرہ بناکر بیچی جائیں تو شرعا بالکل جائز ودرست ہے ،بلکہ ان چیزوں کی بیع پر تو  تمام مسلمانوں  کا عمل در آمد ہے ۔

   چنانچہ فتاوی  رضویہ   میں ہے :” مٹی کہ مال وصالح بیع نہیں ، وہ تراب قلیل ہے جس میں بذل ومنع نہیں جیسے ایک مٹھی خاک، ورنہ تراب کثیر خصوصا بعد نقل بلاشبہ مال ہے اور عموما اس کی بیع میں تعامل بلاد، مٹی کی گاٹھیا چھتو ں پر ڈالنے یا کہگل کرنے یا استنجو ں کے ڈھیلو ں کے لئے جگہ بکتی ہے، ردالمحتارمیں ہے  :   قولہ فخرج التراب ای القلیل مادام فی محلہ والا فقد یعرض لہ بالنقل مایصیربہ مالامعتبرا ومثلہ الماء ( ماتن کے اس قول کہ''مٹی تعریف مال سے خارج ہوگئی'' کا مطلب یہ ہے کہ وہ مٹی قلیل ہواور ابھی تک اپنی جگہ پر پڑی ہو ورنہ وہا ں سے نقل کرلینے کے بعد وہ مال معتبر بن جاتی ہے۔ اورپانی بھی اسی کی مثل ہے) بلکہ زمین خود مٹی ہے اور اس کی بیع قطعا جائز، تو مناط وہی تحقق حد مال ہے۔“(فتاوی رضویہ ،جلد17، صفحہ 157، رضا فا ؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم