Mealworm, Larva Keeron Ki Khareed o Farokht Ka Hukum

کیا Mealworm\larva کیڑوں کو پرندوں اور انسانوں کی خوراک کے لیے بیچنا، جائز ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0045

تاریخ اجراء:03ذوالقعدۃالحرام1444ھ/24مئی2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ ایک کیڑا ہوتا ہے جسےDarkling beetle کہا جاتا ہے۔ یہ کیڑا نمی سے گندم کے چوکر میں پیدا ہوتا ہے اور اسی میں انڈے دیتا ہے۔ اس کے  انڈوں سے جن کیڑوں کی پیدائش ہوتی ہے ،  انہیں  Mealworm \ larva کہا جاتا ہے۔ Mealworms   کو پرندوں اور مچھلیوں کی غذاء کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جس طرح ان  کا استعمال  پرندوں کی غذا کے لئے ہے اسی طرح ان کا استعمال  ان میں موجود وٹا منز کے باعث باڈی بلڈرز بھی کرتے ہیں تاکہ ان کی باڈی  کی نشو ونما اچھی طرح ہوسکے۔ان Mealworms    کا کاروبار نہایت ہی کم انویسٹ میں ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  بڑی سطح پر اس کا کاروبار ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ انٹر نیشنل مارکیٹ میں ہورہا ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ :

   1:کیا  Mealworms کی پرندوں اور مچھلیوں کی غذا کے طور پر تجارت جائز ہے  ؟

   2: کیا ان  کیڑوں کوباڈی بلڈرز کے ہاتھوں بیچنا جائز ہے ،جن کے بارے میں پتا ہو کہ یہ کھانے کے لے رہے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     Mealwormsکی خرید وفروخت پرندوں اور مچھلیوں کی غذا کے طور پر جائز ہے۔البتہ ایسے باڈی بلڈر ز کو بیچنا جائز نہیں جن کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ کیڑے یا ان کا پاؤڈر خودکھائیں گے ۔

   شریعت مطہرہ نے تجارت میں اس بات کو لازمی قرار دیا ہے کہ  بیچی جانے والی چیز، مال ہونے کے ساتھ ساتھ متقوم بھی ہو ۔  کسی بھی چیز کے مال ہونے کے  لئے یہ ضروری نہیں ہوتا  کہ انسان کا اس چیز کو کھانا حلال ہو بلکہ مالیت  کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس کی طرف لوگوں کا رجحان ہو،  لوگ اسے جمع کرتے ہوں ، اسے لینے، دینے میں رغبت رکھتے ہوں  جبکہ متقوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان چیزوں سے شریعت مطہرہ نے نفع اٹھانا،  جائز رکھا  ہو،کسی نہ کسی محل میں ان کا جائز استعمال ہو سکتا ہو، خواہ انسانوں کے لئے استعمال ہو یا جانوروں کے لئے ،جیسا کہ خچر اور گدھے  کی خرید  و فروخت ،کہ انسان انہیں کھا تو نہیں سکتا البتہ سامان وغیرہ اٹھانے کی غرض سے ان جانوروں کو استعمال کرسکتا ہے۔اسی طرح حفاظتی کتا ،کہ انسان اسے کھا تا تو نہیں ہےلیکن اپنے حفاظتی امور میں استعمال  کرسکتا ہے۔ ریشمی کیڑے کی   تجارت کے جواز پر فقہاء کی واضح صراحتیں موجود ہیں، کیونکہ  اس کیڑے کو کپڑے کی تجارت کی غرض سے خریدا جاتا ہے ۔ ریشمی کیڑےکی طرح پرانے دور میں ایسے کیڑے بھی پائے جاتے تھے جنہیں جائز مصرف میں استعمال کیا جاتا تھا مثلاً کپڑا رنگنے میں کیڑوں کو استعمال کیا جاتا تھا،فقہائے کرام رحمہم اللہ السلام نے ان  کی تجارت کو جائز فرمایا۔ فقہاءکرام نے جو مال متقوم کی وضاحت فرمائی ہے اس کے مطابق Mealwormsبھی مال متقوم ہیں کیونکہ لوگ بڑے پیمانے پر کاروبار کی غرض سے اپنے اسٹاک میں جمع رکھتے ہیں ،اور انہیں جائز  اغراض میں   استعمال کیا جاتا ہے ؛جیسا کہ  مچھلیوں اور پرندوں کی غذاء کے طور پر ان کی تجارت کے معاملات کرنا۔لہٰذا اس صورت میں ان کی  خرید و فروخت جائز ہے۔

   جب کہ باڈی  بلڈرز کو یہ فروخت کرنا اس لئے جائز نہیں کیونکہ ان کا شمار حشرات الارض میں سے ہے اور فقہائے کرام نے اگر چہ کیڑوں کا جائز استعمال بتایا ہے لیکن انہیں کھانا ، ناجائز و گناہ بتایا ہے۔ اب ایسے باڈی بلڈرز کو بیچنا جن کے بارے میں یہ معلوم ہو  کہ یہ کیڑے یا ان کا پاؤڈر کھانے کے استعمال  میں لائیں گے  ،یہ گناہ پر مدد کرنا ہوگا اور گناہ پر مدد کرنا،  جائز نہیں۔

Mealwormsکے مال متقوم ہونے اور پرندوں اور مچھلیوں کی غذاء کے طور پر ان کی تجارت کے جائز ہونے کےمتعلق جزئیات:

   علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی بیع کی شرائط کے تحت فرماتے ہیں :”كونه موجودا مالا متقوما“یعنی بیع کی شرائط میں سے مبیع کا موجود اور مال متقوم ہونا بھی ہے۔(رد المحتار،جلد4،صفحہ505،دار الفکر،بیروت)

   مزیدفرماتے ہیں:”والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة “یعنی مال  وہ ہے  جسے وقتِ ضرورت نفع حاصل کرنے کے لئے جمع کیا جا سکے۔(رد المحتار،جلد4،صفحہ502،دار الفکر،بیروت)

   علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ہی متقوم کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”المتقوم هو المال المباح الانتفاع به شرعا“یعنی جس مال سے نفع حاصل کرنا شرعاً  جائز ہو وہ متقوم کہلاتا ہے۔(رد المحتار،جلد5،صفحہ50،دار الفکر،بیروت)

     Mealwormsمال متقوم ہیں۔اور چیز مال متقوم اس وقت بنتی ہےکہ جب لوگ اس کا لین دین  شریعت مطہرہ کی طرف  سے جائز   کردہ کاموں میں کرنا شروع کردیں۔رد المحتار میں  قِرمز کیڑا  جو کہ کپڑا رنگنے میں استعمال کیا جاتاتھا،  کے  مال متقوم ہونے کے متعلق ہے:”أنها من أعز الأموال اليوم، ويصدق عليها تعريف المال المتقوم ويحتاج إليها الناس كثيرا في الصباغ وغيرهیعنی اب ان کیڑوں کا شمار عمدہ مالوں میں ہوتا ہے،اور ان پر مال متقوم کی تعریف بھی صادق آرہی ہے،اور لوگوں کو بھی بکثرت کپڑا رنگنے اور  رنگنے کے سوا دیگر کاموں میں اس کی حاجت ہوتی ہے۔(رد المحتار،جلد2،صفحہ51،دار الفکر،بیروت)

   پرندوں،مچھلیوں کو کھلانا بھی حلال نفع حاصل کرنے کی صورت ہےاور بیع کا جواز نفع کے حلال ہونے پر ہے۔محیط برہانی میں ہے: ”ومحليته يعتمد جواز الانتفاع بها۔۔۔والحاصل: أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع۔“یعنی  ایک چیز مبیع اس وقت بنتی ہے جب اس سے نفع حاصل کرنا ، جائز ہو۔۔۔حاصل کلام یہ کہ بیع کےجواز  کا دار و مدار نفع کے حلال ہونے پر ہے۔(المحيط البرهاني في الفقه النعماني ،جلد6،صفحہ347، دار الكتب العلمية، بيروت)

   الاختیار لتعلیل المختار  و الدر المختار شرح تنویر الابصارمیں ہے والنظم للاختیار:”ويجوز بيع العلق لحاجة الناس إليه“یعنی جونک کی خرید و فروخت جائز  ہے،کیونکہ لوگوں کو اس کی حاجت ہوتی ہے۔(الاختیار لتعلیل المختار ، جلد2،صفحہ10،مطبعۃ الحلبی،قاہرہ)

   رد المحتار میں ہے:”أقول: العلق في زماننا يحتاج إليه للتداوي بمصه الدم، وحيث كان متمولا لمجرد ذلك دل على جواز بيع دودة القرمز فإن تمولها الآن أعظم إذ هي من أعز الأموال، ويباع منها في كل سنة قناطير بثمن عظيم ۔۔۔ وهو أولى من دود القز وبيضه فإنه ينتفع به في الحال ودود القز في المآل“یعنی میں کہتا ہوں کہ ہمارے زمانے  میں  جونک خون چوسنے کے لیے بطور دوا استعمال کی جاتی ہے ۔ جب یہ صرف اتنی حیثیت پراس کو مال قرار دیا تو یہ قرمز کے کیڑوں کو بیچنے کے جواز پر بھی دلیل ہے کیونکہ قرمز کے کیڑے آج کل عمدہ ترین اموال میں سے ہیں ۔ ان کیڑوں کے قنطار (ایک پیمانے کا نام) کو بہت زیادہ قیمت کے بدلے بیچا جاتا ہے ۔ ۔۔۔قرمز کے کیڑے ریشم کے کیڑوں سے اولیٰ ہیں کیونکہ ان کیڑوں سے فی الحال نفع حاصل کیا جاتا ہے اور ریشم کے کیڑوں سے آئندہ زمانے میں نفع حاصل کیا جاتا ہے۔(رد المحتار،جلد5،صفحہ68،دار الفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:”ریشم کے کیڑے اوران کے انڈوں کی بیع جائز ہے۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ706،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بہار شریعت ہی میں ہے:”مال وہ چیز ہے جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو،جس کو دیا لیا جاتا ہو،  جس سے دوسروں کو روکتے ہوں،  جسے وقت ضرورت کے لیے جمع رکھتے ہوں۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ696،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

باڈی بلڈرز کو کھانے کی غرض سے بیچنے کے ناجائز ہونے کے متعلق جزئیات:

   کیڑوں کو کھانے کے استعمال میں لینا حلال نہیں ہے۔در مختار  میں ہے: ”لا یحل ۔۔۔الحشرات“ یعنی کیڑے کھانا حلال نہیں۔(در مختار،جلد6،صفحہ304،دار الفکر،بیروت)

   كيڑے کھانا ، ناجائز استعمال میں داخل ہے،اورفقہاء کرام نے  فتنہ پروروں کو ہتھیار بیچنا بھی اس لئے ناجائز فرمایا کہ وہ اس کا ناجائز استعمال کریں گے ، تکملہ البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے: ”بخلاف بيع السلاح من أهل الفتنة لأن المعصية تقوم بعينه فيكون إعانة لهم وتسببا وقد نهينا عن التعاون على العدوان والمعصية ۔“یعنی فتنہ پروروں  کو ہتھیار بیچنا جائز نہیں کیونکہ معصیت ان ہتھیاروں کے عین کے ساتھ قائم ہے  تو انہیں ہتھیار بیچنا ان کی مدد کرنا اور بغاوت کا سبب بننا شمار ہو گا حالانکہ ہمیں تو سرکشی  اور گناہ کے کاموں میں  مدد کرنے سےمنع کیا گیا ہے۔(تکملہ البحر الرائق،جلد8،صفحہ230،دار الکتاب الاسلامی)

   سیدی اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنت،مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن  فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں: ”وگر برائے معصیت میخواہد روا نیست قال تعالی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان یعنی اگر معصیت کے لئے ان کی بیع مطلوب ہو تو جائز نہیں  کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے گناہ اور سرکشی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔ “(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ170،رضا فانڈیشن،لاہور)

   مزید فرماتے ہیں : ”افیون نشہ کی حدتک کھانا حرام ہے اور اسے بیرونی علاج مثلاً ضمادوطلاء میں استعمال کرنا یاخوردنی معجونوں میں اتنا قلیل حصہ داخل کرنا کہ روز کی قدر شربت نشے کی حدتک نہ پہنچے توجائزہے اور جب وہ معصیت کے لئے متعین نہیں تو اس کے بیچنے میں حرج نہیں مگر اس کے ہاتھ جس کی نسبت معلوم ہوکہ نشہ کی غرض سے کھانے یاپینے کولیتاہے، لان المعصیۃ تقوم بعینھا فکان کبیع السلاح من اھل الفتنۃ۔ اس لئے کہ اس صورت میں  گناہ عین شے کے ساتھ قائم ہے ،لہذا یہ فتنہ پروروں کو ہتھیار بیچنے کی مانند ہوگیا۔“(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ574،رضا فانڈیشن،لاہور)

   بہار شریعت میں ہے: ” اسی طرح افیون وغیرہ جس کا کھانا ناجائز ہے، ایسوں کے ہاتھ فروخت کرنا جو کھاتے ہوں ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر اِعانت  ہے۔(بہار شریعت،جلد3،صفحہ481،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم