Manquli (Moveable) Cheez Ko Qabzay Se Pehle Bechna Gunah Hai

منقولی (Moveable) چیز کو قبضے سے پہلے بیچنا گناہ ہے

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0071

تاریخ اجراء:03ربیع الاول1444ھ/20ستمبر 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی منقولی چیز کو قبضہ سے پہلے بیچ دیا تو کیا ایسا کرنے پر گناہ ملے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   منقولی چیز کوخریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے سے پہلے  آگےبیچنا بیع فاسداورناجائز و گناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔البتہ غیر منقولی چیز  جس کے ہلاک و تلف ہونے کا خوف نہ ہو ، اسے خریدار قبضہ کرنے سے پہلے بھی کسی اور کو فروخت کر سکتا ہے، اس میں شرعاً حرج نہیں ہے۔

   حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :”من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ، قال ابن عباس وأحسب کل شیء بمنزلۃ الطعام“ یعنی  : جس نے کھانا خریدا تو اس کو  نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لے۔  حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا میں گمان کرتا ہوں کہ ہر چیز کا حکم کھانے کی طرح ہے ۔(صحيح مسلم،جلد3، صفحہ1160، بيروت)

   اس حدیث پاک  کی شرح بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ”مراٰۃ المناجیح “میں لکھتے ہیں :” اس حدیث سے آج کل کے بیوپاری عبرت پکڑیں کہ کپڑے کا جہاز ولایت سے چلتا ہے،ابھی کراچی بندرگاہ پر نہیں پہنچ پاتا کہ کئی جگہ اس کی فروخت نفع سے ہوچکتی ہے،بعد میں پھر ان کے دیوالیے ہوتے ہیں۔۔۔  بغیر قبضہ کی کوئی چیز کی تجارت ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ یہ شرعًا گناہ بھی ہے اور سخت نقصان کا باعث بھی۔“(مراٰۃ المناجیح ،جلد04،صفحہ267 ، نعیمی کتب خانہ، ملتقطا)

   منقولی اور غیر منقولی چیز کو قبضہ کرنے سے پہلے بیچنے سے متعلق ہدایہ میں ہے :”من اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه؛ لأنه - عليه السلام - نهى عن بيع ما لم يقبض؛ لأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك،ويجوز بيع العقار قبل القبض عند أبي حنيفة وأبي يوسف …لهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله، ولا غرر فيه؛ لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي عنه غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به، عملا بدلائل الجواز“یعنی: جس نے کوئی ایسی چیزخریدی جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہو تو اس کو قبضہ کر لینے سے پہلے آگے فروخت کرنا،  جائز نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ کرنے سے پہلےفروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ،کیونکہ  یہاں اس چیز کے ہلاک ہونے کی صورت میں فسخ عقد کا غرر موجود ہے ۔ البتہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کے نزدیک غیر منقولی چیز  کو قبضہ کرنے  سے پہلے بھی فروخت کرنا،  جائز ہے۔  ان کی دلیل  یہ ہے کہ بیع کا رکن اپنے اہل سے اپنے محل میں صادر ہوا ہے اور یہاں کوئی غرر بھی موجود نہیں کیونکہ غیر منقولی چیز میں ہلاک ہو جانا ، نادر ہے بخلاف منقولی چیز کے ، اور جس غرر سے منع کیا گیا وہ فسخ عقد کا غر ر ہے اور جواز کے دلائل کی بنا پر حدیث بھی اسی علت سے معلول  ہے ۔(ھدایہ ،جلد 3،  صفحہ59، مطبوعہ بیروت)

   بیع فاسد کے گناہ ہونے اور اسے فسخ کرنے  سے متعلق درمختارمیں ہے:” يجب ( على كل واحد منهما فسخه قبل القبض ) ۔۔۔ ( أو بعده ما دام ) المبيع بحاله۔ جوهرة (في يد المشتري إعداما للفساد) لانه معصية فيجب رفعها۔بحر“یعنی: بیع فاسد کو بائع ومشتری میں سے ہر ایک پر فسخ کرناواجب ہے ، چاہے مبیع پر قبضہ سے پہلے ہو یا بعد، جب تک مبیع مشتری کے قبضے میں اور اپنے حال پر قائم ہے اوریہ فسخ فساد کو ختم کرنے کے لئے ہے کیونکہ یہ معصیت ہے۔ لہٰذا اس کا رفع واجب ہے۔(درمختار معہ ردالمحتار،جلد5،صفحہ91مطبوعہ بیروت)

   غیر منقولہ چیز کوقبضہ کرنے سے پہلے کسی اور کوبیچنے کا حکم بیان کرتے ہوئےاعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ”فتاوی رضویہ “میں لکھتے ہیں :”جائداد غیر منقولہ لے کر پیش ازقبضہ غیر بائع کے ہاتھ بیع کردی تو جائز ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ594،رضافاونڈیشن،لاہور)

   اسی طرح صد رالشریعہ بد الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”بہا رشریعت “میں لکھتے ہیں  :”جائدادغیر منقولہ خریدی ہے اُس کو قبضہ کرنے سے پیشتر بیع کرنا ، جائز ہے کیونکہ اس کاہلاک ہونا بہت نادر ہے اور اگر وہ ایسی ہو جس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتوجب تک قبضہ نہ کرلے بیع نہیں کرسکتا مثلاً بالاخانہ یادریا کے کنارہ کامکان اور زمین یا وہ زمین جس پر ریتاچڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔“ (بہار شریعت، جلد2، صفحہ747، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

   منقولی چیزوں کو قبضہ کرنےسے پہلے  آگے بیچنے کا حکم بیان کرتے ہوئے مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وقار الفتاویٰ میں لکھتے ہیں:”بہر صورت قبضے سے پہلے منقولات کو فروخت کرنا بیع فاسد ہے۔او ربیع فاسد کرنے والا گناہگار ہے۔“(وقار الفتاوی ،جلد03،صفحہ 266،مطبوعہ بزم وقار الدین )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم