Kuttay Ki Khareed o Farokht Aur Kamai Ka Hukum

کتے کی خرید  و فروخت اور کمائی کا حکم

مجیب:    فرحان احمد عطاری مدنی

مصدق: مفتی ابومحمد  علی اصغر عطاری  مدنی

فتوی نمبر: Nor-11974

تاریخ اجراء:       22جمادی الاخری1443 ھ/26جنوری 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ بہارشریعت جلد2، صفحہ809،پر لکھاہے کہ کتا، بلی ،ہاتھی وغیرہ کی بیع جائزہے، جبکہ مشکوۃ المصابیح کی  حدیث میں کتے کی قیمت کو حرام قراردیاگیا ، معلوم یہ کرناہے کہ  حدیث پاک میں ممانعت کے باوجود بہارشریعت میں اس کی اجازت دینے کی کیاوجہ  ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ نے کتوں کا ثمن حرام ہونے والی جس حدیث کاذکرکیایہ حکم اس وقت تھا،جب کتوں  سے نفع لینے کی ممانعت تھی اور ان کو قتل کرنے کاحکم تھا،اُس وقت ان کا ثمن لینابھی حرام تھا،پھردیگراحادیث میں کتوں  کو قتل کرنے سے منع کیاگیااوران سےکھیتی کی حفاظت اور دیگرکاموں میں نفع حاصل کرنامباح قراردیاگیا،تواس نئے حکم سے کتوں کےثمن وصول کرنے والی ممانعت منسوخ ہوگئی ،چونکہ مختلف اعتبارسے کتوں سے نفع حاصل کرنا،ممکن ہے، لہٰذاجہاں کتے سے کوئی بھی جائز نفع ممکن ہو ،مثلا :چوکیداری یا شکار کے لیے کام آنا تو وہاں کتے کی خریدو فروخت جائز ہوگی ۔

   مسلم شریف ہی کی روایت ہے :عن ابن المغفل قال امررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقتل الکلاب ثم قال مابالھم وبال الکلاب ثم رخص فی کلب الصید وکلب الغنم“یعنی حضرت ابن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، پھر  فرمایاکتے لوگوں کو کیاتکلیف دیتے ہیں ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے اور بکریوں کی حفاظت کے لیے کتوں کو پالنے کی اجازت دے دی ۔ (صحیح المسلم ،جلد2،صفحہ 20،مطبوعہ کراچی)

   مسندامام اعظم میں ہے:رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمن کلب الصیدیعنی  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت دی ۔(شرح مسندابی حنیفۃ ،صفحہ401-402،دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   شرح مختصرالطحاوی للجصاص میں ہے:عن جابر قال نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ثمن الکلب ، والھرالاالکلب المعلم فاباح ثمن الکلب المعلم فدل علی جوازبیع الکلاب التی ینتفع بھامن وجھین :احدھما انہ اذا جازبیع الکلب المعلم جازبیع غیرہ من الکلاب لان احدالم یفرق بینھما والثانی ان ذکرہ الکلب المعلم لاجل مافیہ من النفع فکل ماامکن الانتفاع بہ منھافھومثلہ “یعنی :حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے ، بلی کے ثمن  کی ممانعت فرمائی، مگر سکھائے ہوئے کتے کااستثناء فرمایااوراس کے ثمن کومباح فرمایا،تواس بات نے قابل انتفاع کتوں کی بیع کے جائزہونے پر دووجہوں سے  دلالت کی۔پہلی وجہ یہ ہے کہ جب سکھائے گئے کتے کی بیع جائزہے، تو اس کے علاوہ کتوں کی بیع بھی جائزہے ،کیونکہ کسی نے ان دونوں میں فرق نہیں کیا۔دوسری وجہ یہ ہے کہ سکھائے گئے کتوں کاذکراس لیے ہے کہ ان سے نفع حاصل کیاجاتاہے ، تو  کتوں سے نفع حاصل کرنے والی تمام صورتیں اس کی ہی مثل جائزہوں گی ۔ (شرح مختصرالطحاوی للجصاص، جلد3،صفحہ107،دارالبشائرالاسلامیہ )

   کتے بیچنا جائز ہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے:یجوز بیع الکلب یعنی :کتا بیچنا جائز ہے ۔(ھدایہ مع الفتح ، کتاب البیوع ، مسائل منثورۃ ، جلد6، صفحہ245، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم