Khareed o Farokht Mein Kitna Profit Rakh Sakte Hain?

خریدوفروخت میں نفع کی شرح کتنی ہونی چاہیے؟

فتوی نمبر:WAT-92

تاریخ اجراء:12صفر المظفر1443ھ/20ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   خرید و فروخت میں بہت زیادہ نفع کمانا کیسا ہے، شرعاً نفع کی شرح کیا ہونی چاہیے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چیز خریدنے،بیچنے میں شریعت مطہرہ کی طرف سے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں،خریدنے اوربیچنے والا،باہمی رضامندی سے کوئی بھی شرح طے کرسکتے ہیں ،لہذا اگرکوئی اپنی چیز،خریدارکی رضامدنی سے بہت زیادہ نفع رکھ کر بیچے ،توجائزہے،بشرطیکہ جھوٹ اوردھوکے وغیرہ باتوں سے بچے،البتہ اگر کسی چیز کا ریٹ حکومت کی طرف سے متعین ہو اور اسے اس سے زیادہ قیمت پر بیچنا قانوناً جرم ہوکہ جس کی خلاف ورزی پرپکڑدھکڑہوتی ہوتو اب  مقررہ ریٹ سے زیادہ بیچنا منع ہوگا۔

   نوٹ:

   نیزیہ خیال رہے کہ  اگرچہ شرعاً نفع کی کوئی شرح متعین نہیں ، لیکن ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے انہیں مناسب ریٹ پر ہی  چیز بیچےکہ جس ریٹ کووہ اپنے لیے پسندکرتاہے یعنی اگروہ کسی سے کوئی چیزخریدنے جائے توکتنی حدتک کانفع اس سے لیے جانے کووہ پسندکرے گا،دوسروں سے بھی اسی حدتک نفع لےکہ روایت میں ہے :تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک دوسروں کے لیے وہی پسندنہ کرے جواپنے لیے پسندکرتاہے ۔(بخاری)ان شاء اللہ عزوجل اس طرح دنیوی  و اخروی بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم