Karobari Sharakat Mein Najaiz Shart Lagana Kaisa?

کاروباری شراکت میں ناجائز شرائط لگانا کیسا؟

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:6746

تاریخ اجراء:09ذوالقعدۃ الحرام1438 ھ/02اگست2017 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دوافرادنے مل کرایک اسکول میں شراکت داری کی، جس میں کچھ شرائط مقررہوئیں ،ان میں سے مندرجہ ذیل شرائط کےمتعلق شرعی رہنمائی درکارہے:

     (1)اگرکوئی شراکت دار،علیحدگی اختیارکرناچاہے تومطالبے کے دوسال بعداس کی رقم نفع ونقصان کے ساتھ، چھ ماہ کی اقساط میں واپس کردی جائے گی ۔

     (2)اگرمطالبہ ابتدائے کاروبارسے نوماہ کے اندرکیاگیاتودوسال بعد،6ماہ کی اقساط میں صرف اصل رقم واپس کی جائے گی۔

     (3)ایک شریک جوڈائریکٹرہوگا،ادارے کے تمام تراختیارات ہمیشہ، ہرلحاظ سے، تاحیات اسی کے پاس رہیں گے ۔یہ ڈائریکٹرہی کام کرے گا،دوسراشریک سلیپنگ پارٹنرہوگا،یعنی وہ کام بالکل نہیں کرے گا۔

سائل :محمدعمران عطاری(سرگودھا)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)پہلی شرط جس میں شریک کے شراکت ختم کرنے کے بعد،اس کے سامان وغیرہ کی رقم دوسال کےبعد،چھ ماہ کی اقساط میں دینے کی شرط رکھی گئی ہے ۔یہ شرط درست نہیں ہے، کہ جب اس شریک نے شرکت ختم کردی ہے، اب اس کےسامان وغیرہ کااستعمال کرنااس کی اجازت کے بغیرجائزنہیں اورجب وہ مطالبہ کرے گا،کہ یامیراسامان دیاجائے، یااس کی رقم،تواب دیناضروری ہوگا،ہاں اگر)شرط نہ رکھی جائے اورشرکت ختم کرنے کے بعد(وہ اپنی رضامندی سےبغیرکسی جبرکے راضی ہوجائے تویہ الگ صورت ہے اوراس صورت میں بھی جتنی مدت تک کے لیے وہ راضی ہو،اتنی ہی مدت تک مہلت ملے گی ۔فتاوی ہندیہ میں ہے ''وإذا اشتری المضارب بالمال متاعا ثم قال المضارب أنا أمسکہ حتی أجد ربحا کثیرا وأراد رب المال بیعہ فہذا علی وجہین إما أن یکون فی مال المضاربۃ فضل بأن کان رأس المال ألفا واشتری بہ متاعا یساوی ألفین أو لم یکن فی مال المضاربۃ فضل بأن کان اشتری بہ متاعا یساوی ألفا ففی الوجہین جمیعا لم یکن للمضارب حق إمساک المتاع من غیر رضا رب المال إلا أن یعطی رب المال رأس المال إن لم یکن فیہ فضل، أو رأس المال وحصتہ من الربح إن کان فیہ فضل فحینئذ لہ حق إمساکہ''ترجمہ:اورجب مضارب مال کے بدلے سامان خریدلے، پھرمضارب کہے کہ جب تک نفع نہیں حاصل ہوجاتااس وقت تک میں اسے روکے رکھوں گااوررب المال بیچناچاہے تواس کی دوصورتیں ہیں یاتومالِ مضاربت میں نفع ہواہوگا،یوں کہ راس المال ہزارتھااوراس سے وہ سامان خریداجودوہزارکے برابرہے ،یامالِ مضاربت میں کوئی نفع نہیں ہواہوگا،یوں کہ اس نے راس المال کے بدلے ایساسامان خریداجوہزارہی کے برابرہے تودونوں صورتوں میں مضارب ،رب المال کی رضاکے بغیرسامان روکنے کاحق نہیں رکھتا،مگراس صورت میں روک سکتاہے، کہ اگراضافہ نہیں ہواتورب المال کوراس المال دے دے یااگراضافہ ہواہے توراس المال اورنفع میں جتنااس کاحصہ بنتاہے وہ اسے دے دے ۔(فتاوی ہندیہ،ج4،ص295،دارالفکر،بیروت)

     (2)دوسری شرط صراحتاغصب پرمشتمل ہے، کہ اس صورت میں اتنے عرصے کانفع جودوسرے شریک کی ملک ہے وہ ضبط کیاجارہاہے ،تو یہ تعزیربالمال ہے اورتعزیربالمال جائزنہیں، تواس کی شرط رکھنابھی جائزنہیں ہے ۔قرآن پاک میں ہے(وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنْ اَمْوالِ النَّاسِ بِالۡاِثْمِ وَاَنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ)ترجمہ کنزالایمان :اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو  جان بوجھ کر۔(سورۃ البقرۃ ،پ2،آیۃ188)

     سنن الدارقطنی میں ہے''لایحل مال امرء مسلم الاعن طیب نفس''ترجمہ:کسی مسلمان کامال بغیراس کی رضاکے لیناحلال نہیں ہے ۔(سنن الدارقطنی،ج3،ص424،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

     ردالمحتار میں ہے لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعیترجمہ: کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے کسی کا مال لے۔(ردالمحتار، کتاب الحدود باب التعزیر،ج3،ص178، داراحیاء التراث العربی، بیروت )

     فتاوی رضویہ سے ایک سوال،جواب اسی طرح کانقل کیاجاتاہےکیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ انجمن کا یہ پاس کردہ قانون کہ جو مسجد میں ایک وقت کی نماز کو نہ آوے اور نہ آنے کا کوئی قابلِ اطمینان عذر بھی نہ ہوتو اس کو مسجد میں ایک لوٹا رکھنا پڑے گا۔ یہ حکم شرعی سے ناجائز تو نہیں ہے؟الجواب:اگر وہ شخص اپنی خوشی سے ہر غیر حاضری کے جرمانہ میں سو۱۰۰ لوٹے یا سو۱۰۰ روپے دے تو بہت اچھا ہے اور اُن روپوں کو مسجد میں صرف کیا جائے لیکن جبراً ایک لوٹا یا ایک کوڑی نہیں لے سکتا فان المصادرۃ بالمال منسوخ والعمل بالمنسوخ حرام(کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے)۔(فتاوی رضویہ،ج5،ص117-118،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

     (3)تیسری شرط لگانابھی جائز نہیں ہے ۔تفصیل اس میں یہ ہے کہ اسکول چلانے پرجوشرکت  ہےیہ شرکت عمل ہے، یعنی بچوں کوتعلیم دینے پرشرکت ہے اوراس میں بقیہ سارے سامان میں دونوں شریک ہیں ،لیکن عمل کی دوسرے سے نفی کردی گئی ہے ،تویوں ایک طرف سے فقط سامان ہے اوراس سے عمل کی نفی ہے اوراس طرح شرکت عمل درست ہی نہیں ہوتی ۔فتح القدیر ،بدائع الصنائع اور رد المحتار میں ہے(والنظم للآخر) وفي النهر أن المشترك فيه إنما هو العمل، ولذا قالوا: من صور هذه الشركة أن يجلس آخر على دكانه فيطرح عليه العمل بالنصف والقياس أن لا تجوز؛ لأن من أحدهما العمل ومن الآخر الحانوت واستحسن جوازها؛ لأن التقبل من صاحب الحانوت عمل۔۔ولو من أحدهما أداة القصارة والعمل من الآخر فسدت‘‘یعنی نہر میں ہے کہ ان میں مشترک وہ صرف  عمل ہے اسی لئے فقہانے فرمایا :اس شرکت کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ کسی شخص نے دوسرے کو اپنی دکان پر بٹھالیا کہ وہ کام لے کر اسے دے گااورنفع نصف نصف ہوگا، تو قیاس یہ ہے کہ یہ صورت ناجائز ہو،کیونکہ ایک کی طرف سے عمل ہے اور دوسرے کی طرف سے دکان ہے، مگر استحسانا ،یہ جائز ہے ،کیونکہ صاحب دکان کاکا م لینا اس کی طرف سےکام ہے۔۔۔اور اگر یوں شرکت ہوئی کہ ایک کے اوزار ہوں گے اور دوسرا کام کریگا تو یہ شرکت ناجائز ہے۔(رد المحتار،ج4،ص322،دار الفکر، بیروت)

     اس عبار ت  کے آخری جز’’العمل من الآخر فسدت‘‘ کے تحت علامہ رافعی فرماتے ہیں :’’لا یظھر الفساد الا اذا شرط العمل علی الآخر مع النھی کما سبق‘‘یعنی (دکان، اوزار جب ایک کی طرف سے ہوں تو)فساد اسی صورت میں ظاہر ہوگا جب کہ دوسرے پر کام کی شرط کی جائے (خود سے کام  کی ) نفی کے ساتھ جیسا کہ گزرا۔( تقریراتِ رافعی  علی رد المحتار،ج6،ص393، کوئٹہ)

     یہ عقدشرکت ختم کیاجائے اوراگرنیاعقدکرناہے تواس عقدمیں ان شرائط کوشامل نہ کیاجائے اورکسی شریک کے عمل کی نفی نہ کی جائے اوراس کے علاوہ جوشرائط رکھنی ہیں ان کے حوالے سے دارالافتاء اہلسنت سے رہنمائی لے لی جائے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم