Karobar Mein Jhoot Bolna

کاروبارمیں جھوٹ بولنا

مجیب:ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی نمبر: WAT-1066

تاریخ اجراء:13صفرالمظفر1444 ھ/10ستمبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   لوگ کہتے ہیں کاروبار میں جھوٹ بولنا ، جائز ہے ۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اگر صحیح ہے تو کب جائز ہے ؟ ورنہ غلط ہے تو اس کی رہنمائی فرمائیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لوگوں کا یہ کہنا غلط ہے ، کیونکہ کاروبار میں جھوٹ بولنا بھی حرام و گناہ ہے ۔ احادیثِ کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کاروبار میں جھوٹ بولنے والوں کو بد کار فرمایا ۔ چنانچہ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہار شریعت ، جلد2 ، حصہ11 ، صفحہ612 پر ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

   (1):تجار (یعنی تاجر لوگ) قیامت کے دن فُجار (یعنی بدکار) اُٹھائے جائیں گے، مگر جو تاجر متقی(یعنی پرہیزگار) ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے۔“ (جامع الترمذی)

   (2): تجار بدکار ہیں ۔ “ لوگوں نے عرض کی، یارسول اﷲ! (صلی اﷲ علیہ وسلم) کیا اللہ پاک نے بیع(یعنی تجارت) حلال نہیں کی ہے ؟ فرمایا : ”ہاں! بیع حلال ہے ولیکن یہ لوگ بات کرنے میں جھوٹ بولتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں، اس میں جھوٹے ہوتے ہیں ۔ “(مسند احمد)

   (3): تمام کمائیوں میں زیادہ پاکیزہ اُن تاجروں کی کمائی ہے کہ جب وہ بات کریں ، جھوٹ نہ بولیں اور جب اُن کے پاس امانت رکھی جائے ، خیانت نہ کریں اور جب وعدہ کریں ، اُس کا خلاف نہ کریں اور جب کسی چیز کو خریدیں ، تو اُس کی مَذمت (برائی) نہ کریں اورجب اپنی چیزیں بیچیں ، تو اُن کی تعریف میں مبالغہ نہ کریں اور ان پر کسی کا آتا ہو ، تو دینے میں ڈھیل نہ ڈالیں اور جب ان کا کسی پر آتا ہو ، تو سختی نہ کریں۔“ (شعب الایمان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم