Kapda Katne Ke Baad Than Me Se Aib Nikal Aaya Tu kya Hukum Hai ?

کپڑا کاٹنے کے بعدتھان میں سے عیب نکل آیا، توکیا حکم ہے؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2621

تاریخ اجراء:       18صفرالمظفر 1444  ھ/16 ستمبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ ہم پارسل کی صورت میں کپڑے خریدتے ہیں، ایک پارسل میں 10 تھان ہوتے ہیں۔ سو میٹر کا ایک تھان ہوتا ہے ، جو تھان بغیر کٹنگ کے ہوتا ہے،اسے فریش بولتے ہیں، اس کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ جس تھان میں کٹنگ ہو، وہ دو تین حصوں میں ہوتا ہے اور اس کا ریٹ کم ہوتا ہے ۔ اب ہوا کچھ یوں کہ ہم  نے 2 فریش پارسل خریدے ،جس میں20 تھان تھے، ہم نےایک پارسل کو کھولنے کے بعد گاہک کو دینے کے لیے  تھان میں سے سوٹ کاٹ دیا بعد میں پتہ چلا کہ یہ کٹنگ والاتھان ہے،جبکہ ہم نے فریش تھان منگوائے تھے، اب خریدا ہوا مال واپس کریں گے یا کٹنگ کے ریٹ پر خریدیں گے؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ نے چونکہ کپڑا کاٹ دیا ہے، اب جس سے آپ نے کپڑا خریدا ہے،اگر وہ واپس لینے پر راضی ہے،  تو آپ واپس کرسکتے ہیں، اگر وہ واپس لینے پر راضی نہیں، تو آپ نقصان لے سکتے ہیں ، یعنی آپ نے فریش تھان منگوائے تھے،لیکن یہ کٹنگ والے تھان نکلے،تو اس کی وجہ سے جتنا ریٹ کم ہوا ہے، آپ اتنی رقم لے لیں۔

   محیطِ برھانی میں ہے:”إذا اشترى من آخر ثوبا فقطعه ولم يخطه حتى اطلع على عيب به لم يرده ولكن يرجع بنقصان العيب، فإن قال البائع: أنا أقبله كذلك فله ذلك“ترجمہ:ایک شخص نے جب کسی سے کپڑا خرید کر کاٹ لیا ، ابھی سلائی نہیں کیا اور عیب پر مطلع ہوا ، تو واپس نہیں کر سکتا، لیکن عیب کی وجہ سے ہونے والا نقصان لے سکتا ہے ، اگر بیچنے والا کہے کہ مجھے اسی طرح کٹا ہوا قبول ہے ، تو اس کی اجازت ہے۔(المحيط البرهاني في الفقه النعماني ،جلد6،صفحہ 552،بیروت)

   درِمختار میں ہے:”( اشترى ثوبا فقطعه فاطلع على عيب رجع به) أي بنقصانه لتعذر الرد بالقطع (فإن قبله البائع كذلك له ذلك) لانه أسقط حقه“ترجمہ:کسی نے کپڑا خرید کر  کاٹ لیا،پھر عیب پر مطلع ہوا ، تو نقصان لے سکتا ہے، کاٹنے کے سبب پورے کپڑے کی واپسی  ممتنع ہونے کی وجہ سے۔اگر بائع کٹا ہوا واپس لینے پر راضی ہوجائے، تو ایسے ہی واپس کر دیں، کیونکہ بائع نے خود اپنا حق ساقط کر دیا ہے۔(الدر المختار شرح تنوير الأبصار ،صفحہ 408،مطبوعہ بیروت)

   بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:”(اذا کان) المبیع( ثوباً فقعطعہ )ثم وجدہ معیباً فانہ یرجع بالنقصان بالاجماع“ترجمہ:جب (بیع میں)مبیع کپڑا ہو، پھر اسے کاٹ دیا ، بعد میں اس میں عیب پایا ، تو بالاتفاق نقصان لے سکتا ہے۔(البنایہ فی شرح الھدایہ، جلد10، صفحہ 182، مطبوعہ ملتان)

   بہارِ شریعت میں ہے:”کپڑا خریدا اُسے قطع کرایا اور ابھی سِلا نہیں، اس میں عیب معلوم ہوا، اسے واپس نہیں کر سکتا ،بلکہ نقصان لے سکتا ہے۔ہاں اگر بائع قطع کیے ہوئے کو واپس لینے پر راضی ہے ،تو اب نقصان نہیں لے سکتا۔“(بھار شریعت، جلد2، صفحہ 683،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم