مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0049
تاریخ اجراء:30محرم الحرام 1445ھ/18اگست 2023 ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics
Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت
اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان
شرع متین اس مسئلے میں کہ میرا
ہیئر آئل (Hair Oil) کا
کارخانہ ہے ، اگر کوئی شخص مجھ سے ہیئر آئل(Hair Oil) بنانے
کا فارمولا(Formula) خریدے
تو میرا اسے بیچنا شرعاً کیسا ہے؟ یہ خریداری بذریعہ صفحات ہوگی یعنی
ایک پیپر ہوگا جس پر یہ فارمولا لکھا ہوا ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھے گئے طریقہ کارکے
مطابق ہیئر آئل بنانے کا فارمولا فروخت
کرناشرعاً جائزہے۔
تفصیل ِ مسئلہ:شریعت مطہرہ نے تجارت
میں اس بات کو لازمی قرار دیا ہے کہ بیچی جانے والی چیز، مال
ہونے کے ساتھ ساتھ متقوم (Valuable)بھی
ہو ۔ کسی چیز کے مال ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس
کی طرف لوگوں کا رجحان ہو،لوگ اسے جمع کرتے ہوں ، اسے لینے، دینے
میں رغبت رکھتے ہوں جبکہ متقوم (Valuable)ہونے
کے معنی یہ ہے کہ ان چیزوں سے شریعت مطہرہ نے نفع اٹھانا، جائز رکھاہو۔ہمارے دور میں کاغذ کو
ایک عمدہ مال سمجھا جاتا ہے ، اور مختلف طریقوں پر کاغذسے نفع اٹھا
یا جاتا ہے ۔
پوچھی گئی صورت
میں جس کاغذ کو بیچنا مقصود ہے ، یہ بھی مال کی تعریف
(Definition)پر
پورا اتر رہا ہے۔ یہاں کاغذ پر
جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس سے اس کی ویلیو (Value) میں
مزید اضافہ ہی ہو رہا ہے لہٰذا اس کاغذ کی خرید و فروخت
جائز ہے۔
جس چیز کو بیچا جا رہا ہو، اس کا مال متقوم ہونا ضروری ہے۔علامہ
شامی رحمہ اللہ تعالی بیع کی شرائط کے تحت فرماتے ہیں:”كونه موجودا مالا متقوما“یعنی بیع
کی شرائط میں سے مبیع کا موجود اور مال متقوم ہونا ہے۔(رد المحتار،جلد4،صفحہ505،دار الفکر،بیروت)
مزیدفرماتے ہیں:”والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة “یعنی مال وہ ہے جسے
وقتِ ضرورت نفع حاصل کرنے کے لئے جمع کیا جا سکے۔(رد المحتار،جلد4،صفحہ502،دار الفکر،بیروت)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ہی متقوم
کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”المتقوم هو المال المباح الانتفاع به شرعا“یعنی جس مال سے
شرعاً نفع حاصل کرنا ، جائز ہو وہ متقوم کہلاتا ہے۔(رد المحتار،جلد5،صفحہ50،دار الفکر،بیروت)
سیدی اعلی
حضرت ،امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کاغذکے
مال متقوم ہونے کے متعلق کفل الفقیہ الفاھم میں تحریر فرماتے ہیں:”الکاغذ مال متقوم وما زادتہ ھذہ السکۃ
الا رغبۃ للناس الیہ وزیادۃ فی صلوح ادخارہ للحاجات
وھذا معنی المال ۔۔۔ و معلوم ان الشرع لم یرد بحجر المسلم
عن التصرف فی قطعۃ قرطاس کیفما کانت کما ورد بہ فی الخمر والخنزیر
وھذا ھومناط التقوم۔“یعنی کاغذ مال متقوم ہے،اور نوٹ بننے کی
اس خاص ہیئت نے لوگوں کی
رغبت اور حاجتوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی رغبت
میں اضافہ ہی کیا ،اور یہی مال کا معنی ہے
۔۔۔ اور یہ بات بھی
معلوم ہے کہ شریعت مطہرہ نے مسلمانوں
کو کاغذ کی کسی بھی قسم
سے جائزنفع اٹھانے سے منع نہیں
فرمایا،جیسا کہ شراب و خنزیر سے منع فرمایا،اور یہی تقوم کا معنی ہے یعنی
شریعت مطہرہ کا کسی چیز
سےجائز نفع اٹھانے سے منع نہ فرمانا۔(کفل الفقیہ،صفحہ3،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
فارمولا لکھا کاغذ بیچنا تو پھر بھی ایک قیمتی یعنی ویلیو
ایبل (Valuable) مال
بیچنا ہے ،امام ابن ہمام نے سادہ کاغذ (Plain Paper) کی
بیع کے متعلق یہاں تک فرمایا:”باع كاغذة بألف يجوز ولا يكره“یعنی کسی شخص کا کاغذ
کو ایک ہزار کے بدلے بیچنا بلا کراہت جائز ہے۔(فتح القدیر شرح ہدایہ،جلد7،صفحہ
212،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)
صدر الشریعہ ،بدر الطریقہ مفتی امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:”مال وہ چیز ہے
جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو،
جس کو دیا لیا جاتا ہو،
جس سے دوسروں کو روکتے ہوں ، جسے وقت ضرورت کے لیے جمع رکھتے ہوں“۔(بہار شریعت،جلد2،صفحہ696،مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟