Jis Qeemat Par Cheez Bechne Ka Wakeel Kiya Us Se Zaid Mein Bechna

جتنے پیسوں میں چیز بیچنے کا وکیل بنایا، اس سے زائد میں بیچنا

مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

فتوی نمبر: WAT-1697

تاریخ اجراء: 10ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/30مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی ہمیں کہے کہ چار ہزار کی یہ چیز بکوا دو۔ہم وہ چیز 4200 کی بیچ دیں تو کیا اوپر والے دو سو ہم رکھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں وہ ساری رقم اس اصل مالک ہی کی ہوگی۔ اوپر والی رقم رکھنا آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔ کیونکہ آپ وکیل ہیں اوروکیل اگرموکل کی مقررکردہ مقدارسے زیادہ میں چیزبیچ دے تویہ بیچنادرست ہوتاہے کہ اس میں موکل کافائدہ ہی ہے اوروہ ساری رقم موکل ہی کی ملک ہوتی ہے ۔

   دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے "(الوكيل إذا خالف أمر الآمر إن كان خلافا إلى خير في الجنس بأن وكله ببيع عبده بألف درهم فباعه بألف ومائة ينفذ"ترجمہ:وکیل جب حکم دینے والے (موکل)کے حکم کی خلاف ورزی کرے ،اگریہ خلاف ورزی اسی جنس میں بہتری کی طرف ہویوں کہ اس نے اسے اپناغلام ایک ہزار درہم کے بدلے بیچنے کاوکیل بنایاپس وکیل  نے اسے ایک ہزاراورایک سودرہم کے بدلے بیچ دیاتویہ بیع نافذہوجائے گی ۔ (دررالحکام شرح غررالاحکام،کتاب الوکالۃ،باب الوکالۃ بالبیع والشراء،ج02،ص289،داراحیاء الکتب العربیۃ)

   مجمع الضمانات میں ہے "ولو وكله ببيع عبده بألف فباعه بألفين فالألفان كله للموكل، من الهداية." ترجمہ:اوراگراسے وکیل کیااپناغلام ایک ہزارکے بدلے بیچنے کاپس اس نے غلام کودوہزارکے بدلے بیچ دیاتو دو ہزار مکمل،موکل کے ہیں ۔یہ مسئلہ ہدایہ سے لیاگیاہے۔(مجمع الضمانات،باب فی الوکالۃ والرسالۃ،ج01،ص261، دارالکتاب الاسلامی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم