Janwaron Ki Shakal Wali Tray Ki Kharid o Farokht Ka Hukum?

جانوروں کی شکل والی ٹرے کی خریدوفروخت کا حکم!

مجیب:مولانا ساجد مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: UK-63

تاریخ اجراء:12رجب المرجب1441ھ/07مارچ2020 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہاں کیک بنانے کے لیے کچھ ٹریز(Trays) ملتی ہیں ،یہ کیک بنانے کا ایک قسم کا سانچہ ہوتا ہےاوران کابیرونی ڈیزائن  ایسا ہوتا ہے کہ جس  سے کسی  جانورکے چہرے کی شیپ(shape) یا نقشہ بن جاتا ہے،جیسے بطخ، گھوڑا وغیرہ۔ لوگ ان کو خرید کر اس میں کیک بناتے ہیں ۔ اس سانچے سے جانور کے چہرے کا خاکہ اور نقشہ تو بن جاتا ہے، لیکن  ناک ، منہ، آنکھیں اورچہرہ نہیں بنتا ،البتہ بعض اوقات کیک کے اوپر مختلف رنگوں سے ڈیکوریٹ کر کے جانور کا چہرہ بنالیاجاتا ہے ۔ ان ٹریز کو کچن میں دیگر چیزیں ڈالنے وغیرہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کو بیچنا جائز ہے؟

 سائل: خالد رشید (یوکے

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں بیان کردہ ٹریز (Trays) یا سانچوں کو فروخت کرنا شرعی طور پر جائز ہے، کیونکہ اس سانچے سے فقط ایک خاکہ ، نقشہ یا ڈیزائن بنتا ہے، چہرے کی تصویر نہیں بنتی اور ممنوع وہ ہے جس میں چہرے کی تصویر  ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر تصویر میں سے چہرہ صاف کر دیا جائے، تو وہ ممنوع نہیں رہتی۔لہذاان ٹریز  کو بیچنا بالکل جائز ہے ، خصوصا جبکہ اس کے دیگر استعمال بھی ہیں ۔ ہاں  اس طرح کی شیپ کا کیک بنا کر اگر کوئی شخص چہرے کی تصویر  بھی بنائے، تواس کا گناہ اسی شخص کو ہوگا ، ان ٹریز کو فروخت کرنے والا گنہگار نہیں ہوگا۔ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔

(فاطر، آیت: 18)

    امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:” تصویر فقط چہرہ کانام ہے۔امام اجل ابوجعفرطحاوی سیدناابوہریرہ رضی اﷲتعالی عنہ سے روایت فرماتے ہیں: الصورۃ ھو الرأس۔فقط چہرہ تصویرہے۔ “

(فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ568، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    ايک اور مقام پر لکھتے ہیں:”صورت ِحیوانی کہاجانا اور اس کے لیے مرأۃ ملاحظہ ہونا دونوں کامدارچہرہ پرہے، اگرچہرہ نہیں ،تو اسے صورت حیوانی نہ کہاجائے گا،چہرہ ہی سے معرفت ہوتی ہے،چہرہ دیکھا اور باقی بدن کپڑوں سے چھپاہے ،تو کہے گا میں اسے پہچانتاہوں اورچہرہ نہ دیکھا ،تونہیں کہہ سکتا، اگرچہ باقی بدن دیکھاہو۔“

 (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ635، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”ایسے کپڑے پرسے تصویرمٹادی جائے یا اس کاسریاچہرہ بالکل محوکردیاجائے، اس کے بعد اس کاپہننا، پہنانا، بیچنا، خیرات کرنا، اس سے نماز، سب جائزہوجائے گا۔“

    (فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ567، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    جوچیز گناہ کے لیے خاص نہ ہو، اس کو بیچنا جائز ہوتا ہے،  اگرچہ کسی تبدیلی وغیرہ کے ذریعے اسے گناہ میں استعمال کرنا ممکن ہو،چنانچہ بدائع میں ہے : ”ولا يكره بيع ما يتخذ منه السلاح منهم كالحديد وغيره؛ لأنه ليس معدا للقتال فلا يتحقق معنى الإعانة، ونظيره بيع الخشب الذي يصلح لاتخاذ المزمار فإنه لا يكره وإن كره بيع المزامير. “ترجمہ: جس چیز سے اسلحہ بنایا جاتا ہے، جیسے لوہا وغیرہ، اسے فروخت کرنا مکروہ نہیں ،کیونکہ یہ خاص قتال کے لیے تیار نہیں کیا گیا،  لہذا اس میں(گناہ پر)مددکے معنی نہیں پائے جاتے اور اس کی نظیر وہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی لکڑی فروخت  کرے جس  سے

    آلات موسیقی بنائے جاتے ہوں ،تو یہ مکروہ نہیں، اگرچہ آلات موسیقی فروخت کرنا مکروہ ہے۔    

(بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ233، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم