مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8139
تاریخ اجراء: 12 جمادی الاولی1444ھ/07 دسمبر 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ
شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل بعض علاقوں میں گلی محلے میں بال خریدنے
والے آتے ہیں۔ مردانہ اور
بالخصوص ” جَڑ “ والے زنانہ بالوں کو آٹھ
ہزار روپے کلو تک خریدتے ہیں۔ لوگ اُنہیں اپنی گھر
کی خواتین اور مردوں کے بال بیچتے ہیں، جو عموماً ایک
پاؤ یا چھٹانک (ایک کلو کا
سولہواں حصہ)بھی نہیں ہوتے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا
اِس طرح بالوں کو بیچنا اور اُن کا خریدنا، جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مرد یا عورت کے بالوں
کی خرید وفروخت ناجائز و حرام ہے اورعورتوں کے بالوں میں
خرید وفروخت کے علاوہ دوسری
برائی یہ بھی ہے کہ عورت کے بال سَر سے جدا ہونے کے بعد
بھی شرعاً چھپانا واجب اور ضروری ہوتا ہے، کہ اُن پر نامحرم کی نظر نہ پڑے ، لہٰذا جب
بال بیچے جائیں گے تو خریدار
اور بعد کے مراحل میں جتنے نامحرم اُن بالوں کو دیکھیں
اور چھوئیں گے، اُن سب کا وَبال اور گناہ بھی بیچنے والے پر آئے
گا، لہٰذا خریدنے اور
بیچنے والے، دونوں کو چاہیے کہ معمولی نفع کے لیے
اپنی آخرت برباد اورخدا کو ناراض نہ
کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مُعَزز، مکرَّم اور محترم بنایاہے،
چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:﴿وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا
بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ
الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ
فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾ترجمہ : اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی
اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو
ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی
مخلوق پر بہت سی برتری دی۔ (پ15،
بنی اسرائیل:70) اورانسانی بناوٹ کو سب سے بہترین صورت پر بنایا ، چنانچہ
فرمایا:﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ
اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ﴾ ترجمہ: بیشک یقیناً ہم نے آدمی کو سب سے اچھی
صورت میں پیدا کیا۔ (پ30، التین :4) اور انسان کی
خاطر زمین اور جو کچھ زمین
میں ہے، سب کو پیدا کیا
گیا، چنانچہ فرمایا:﴿ هُوَ الَّذِیْ
خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ترجمہ
کنزالعرفان:وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے ،سب تمہارے لیے
بنایا۔(پ1 ، البقرۃ : 29)لہٰذا
جب انسان کی اِس قدر عظمت وکرامت ہے، تواسی انسانی تکریم کی بنیاد پر اُس کے اَعضاء کی
خرید وفروخت کو ناجائز، گناہ اور حرام قرار دیا ۔
اِس کے علاوہ فقہائے کرام نے بالوں کی بیع کے ناجائز
ہونے کی دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ ”جزوِ
انسانی“ مال نہیں، کہ اِس کی خریدوفروخت ہو، لہٰذا
جب بال شرعی نقطہ نظر سے مال نہیں، تو اِس کی بیع
بھی شرعاً ”باطِل“ہے۔
اگر کسی مرد وعورت نے بال بیچ کر رقم حاصل کی ،تو
اُس بیچنے والے یا والی پر لازم ہے کہ اوَّلاً اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے، نیز جن
افراد سے وہ رقم حاصل کی ،اُنہیں واپس کرے، اگر وہ نہ ہوں ،تو اُن کے وُرَثاکو اور وُرَثاکا بھی
علم نہ ہو،تو اصل مالک کی طرف سے فقیرِ شرعی پر صدقہ کردی جائے۔ اِس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا ،ناجائز اور گناہ ہے ۔
مہذِّب فقہ حنفی، امام محمد
بن حسن شیبانی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:189ھ/804ء) لکھتے ہیں:’’ لا يجوز بيع شعر الانسان والانتفاع به‘‘ ترجمہ:انسانی بالوں کی خرید
وفروخت اور اُس سے نفع کا حصول جائز
نہیں۔(الجامع الصغير مع
شرحه النافع الكبير، صفحہ328، مطبوعہ دار عالَم الكتب، بيروت)
اِس عدمِ جواز کی عِلَّت
بیان کرتے ہوئے ابو الحسنات علامہ عبدالحی لکھنوی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1304 ھ/1886ء) نے لکھا:’’لأن
الإنسان مكرم فلا يجوز أن يكون منه شيء مبتذل ‘‘ ترجمہ:کیونکہ انسان کو عزت والا بنایا
گیا ہے، لہذا یہ جائز نہیں کہ اُس کے بدن کے
کسی حصے کو (بیع وشراء) کے
ذریعے حقیر وذلیل بنایا جائے۔ (النافع الكبير علی
الجامع الصغير ، صفحہ328، مطبوعہ دار عالَم الكتب، بيروت)
چند کلمات کی تبدیلی اور ایک
حدیث مبارک سے استدلال کرتے ہوئے فخر الدین علامہ
زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:743ھ/1342ء) رَقَم طَراز ہیں:’’لا يجوز بيع
شعر الإنسان والانتفاع به، لأن الآدمي مكرم
فلا يجوز أن يكون جزؤه مهانا وقال عليه
السلام «لعن اللہ الواصلة والمستوصلة»، وإنما لعنا للانتفاع به
لما فيه من إهانة المكرم‘‘ ترجمہ: انسانی بالوں
کی خرید وفروخت اور اُس سے
نفع کا حصول جائز نہیں، کیونکہ انسان کو عزت والا بنایا
گیا ہے، لہذا یہ جائز نہیں کہ اُس کے بدن کے کسی حصے
کی (بیع وشراء) کے
ذریعے اہانت کی جائے۔ محسنِ انسانیت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’اپنے بالوں میں
دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر اللہ تعالیٰ
نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘(حدیث کا ترجمہ مکمل
ہوا۔) اُن دونوں(واصِلہ اور مُستوصِلہ)
پر بالوں سے نفع اٹھانے کی وجہ سے ہی لعنت کی گئی،
کیونکہ اُن کی اُس حرکت(وصل الشعر)
میں کرامتِ انسانی کی اِہانت وتذلیل ہے۔ (تبیین الحقائق، جلد4،
صفحہ 51،مطبوعہ المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،
مصر)
انسانی اعضاء کے مال نہ
ہونے کے متعلق علامہ اکمل الدین
بابرتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:’’جزء الآدمی لیس بمال۔۔۔
وما لیس بمال لا یجوز
بیعہ‘‘ترجمہ: آدمی کا جزو مال نہیں اور جو چیز مال نہ
ہو،اس کی خریدوفروخت جائز نہیں۔(العنایۃ شرح
الھدایۃ، جلد6، صفحہ 390، مطبوعہ کوئٹہ)
اِس بیع کے باطِل ہونے کے متعلق علامہ شمس الدین تُمُرْتاشی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1004ھ) نے لکھا:’’بطل بیع…
شعر الانسان ‘‘ ترجمہ: انسانی بالوں کی خریدوفروخت شرعاً باطل ہے۔ (تنویر
الابصار مع درمختار وردالمحتار،جلد7،صفحہ 245،مطبوعہ کوئٹہ)
اعضائے بدن کی طرف نظر
کرنے کے متعلق ضابطہ یوں ہے: ’’ کل عضو لا یجوز النظر
إلیه قبل الانفصال ،
لا یجوز بعده و لا بعد الموت، کشعر عانة و شعر رأسها ‘‘ترجمہ : ہر وہ عضو کہ جس کی طرف جسم سے جدا ہونے سے پہلے دیکھنا جائز نہیں،اُس کی طرف جسم سے جدا ہونے کے بعد بھی
دیکھنا جائز
نہیں،حتی کہ موت کے بعد
بھی نہیں ،جیسا کہ زیرِ
ناف بال اور عورت کے سر کے بال۔(درمختار
مع ردالمحتار ، جلد9، صفحہ612، مطبوعہ کوئٹہ )
بیعِ باطل کی صورت میں حاصل شدہ ثمن کا حکم
بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد
رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ بُطلان پر (بیع باطل کی صورت میں )وہ روپیہ کہ بنامِ ثمن
، زمینداروں نے لیا ، اُن کے لیے حرام ۔‘‘ (فتاویٰ
رضویہ، جلد19،صفحہ431،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
ایسی رقم کی واپسی کے متعلق لکھا:’’ قیمت
کہ زمینداروں نے لی ، بدستور ملکِ مشتریان (پرباقی ہے)، اُن (زمینداروں
) پر فرض کہ قیمت پھیریں(واپس ادا کریں)۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ، جلد19،صفحہ427،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
واپسی کرنے کی دیگر صورتوں کے متعلق لکھا:’’اس پر
فرض ہے کہ (مالِ حرام )جس جس سے لیا ان پر واپس کر دے،وہ نہ رہے ہوں،ان کے
ورثہ کو دے،پتہ نہ چلے ،تو فقیروں پر تصدق کرے، خریدوفروخت کسی
کام میں اس مال کا لگانا حرام قطعی ہے،بغیر صورت ِ مذکورہ کے
کوئی طریقہ اس کے وبال سے سُبکدوشی کا نہیں۔‘‘(فتاویٰ
رضویہ، جلد23، صفحہ551،مطبوعہ
رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
ہماری شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ عورت کے بال سَر
سے جدا ہوں،تو اُنہیں دَفْن کیا جائے، چنانچہ صدرالشریعہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) نےلکھا:’’عورتوں کو بھی لازم ہے کہ کنگھا کرنے میں یا سر
دھونے میں جو بال نکلیں، انہیں کہیں چھپا دیں کہ اُن
پر اجنبی کی نظر نہ پڑے۔“ (بھار
شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ449، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟