Gari Kharidne Ke Baad Aib(Defect) Ka Pata Chala Tu Wapsi Ka Hukum

 

عیب نہ ہونے کی شرط پر گاڑی خریدی اور بعد میں عیب ظاہر ہوا ،تو حکم

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar- 8991

تاریخ اجراء: 22محرم الحرام 1446 ھ/29جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے  دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ میں رینٹ پر کار چلاتا ہوں،میں نے زید سے 00 58،00،0  میں ایک کار Total Genuine کی گارنٹی پر خریدی ،کچھ دن بعد میں نے مکینک سے چیک کروائی،تو اس کے دو دروازے پینٹ شدہ نکلے،لیکن میری گاڑی  اگلے چھ دنوں کے لیے شادیوں کے سلسلہ میں رینٹ پر بُک تھی،اس سے فارغ ہو کر میں نے زید کو واپس کرنا چاہی ،تو زید  نے واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا  آپ کو جب معلوم ہوا تھا،تو فوراً واپس کرتے ،اب اتنی چلانے کے بعد میں واپس نہیں لوں گا۔پوچھنا یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے میں یہ گاڑی زید کو زبردستی واپس کر سکتا ہوں یا نہیں؟نیز گاڑی کا پینٹ شدہ ہونا عیب ہے یا نہیں؟اگر عیب ہے تو پینٹ ہونے سے گاڑی کی قیمت میں جو کمی ہوتی ہے،اتنی قیمت  میں واپس لے سکتا ہوں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دریافت کی گئی صورت میں آپ زید کو نہ تو گاڑی واپس کر سکتے ہیں اور نہ ہی گاڑی کے پینٹ ہونے کے عیب سے جو قیمت میں نقصان ہوا ہے،وہ واپس لے سکتے ہیں۔

   تفصیل یہ ہےکہ شریعت کی نظر میں جو چیز تاجروں کے عرف میں قیمت میں کمی کا سبب بنے وہ عیب کہلاتی ہے،گاڑی کا پینٹ ہونا،اس کی قیمت میں کمی کا سبب بنتا ہے،لہذا یہ ایک عیب ہے اور شریعت نے عیب کی وجہ سے چیز واپس کرنے کا خریدار کو اختیار دیا ہے،بشرطیکہ خریدار نے عیب پر مطلع ہو کر فورا ًچیز واپس کر دی ہو،استعمال نہ کی ہو اوراگرخریدار  عیب پر مطلع ہونے کے باوجود شے میں مالکانہ تصرف کرتا رہا،تو اب اسے چیز واپس کرنے یا نقصان وصول کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ عیب پر مطلع ہونے کے بعدشے میں مالکانہ تصرف کرنا،عیب پرراضی ہونے کی دلیل ہےاورعیب پرراضی ہونا،واپسی اوررجوع کے اختیارکوساقط کردیتاہےاور چونکہ صورتِ مسئولہ میں آپ گاڑی کے عیب (پینٹ شدہ ہونے)پر مطلع ہو کر رینٹ پر چلاتے رہے ،جو کہ آپ کی طرف سے رضا ہے،لہذا اب آپ گاڑی واپس یانقصان کی  قیمت وصول نہیں کر سکتے۔

   یاد رہے کہ مبیع(فروخت کی گئی چیز)میں عیب ہو،تو بیچنے والے پر اس عیب کا بتانا واجب ہوتا ہے،لہذا  اگر زید کو گاڑی کا پینٹ شدہ ہونا معلوم تھا،پھر بھی Total Genuineکہہ کر فروخت کردی ،تو زید جھوٹ،دھوکا  دہی اور عیب چھپانے والے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا،اس پر فرض ہے کہ فوراً توبہ کرے اور آئندہ گاہک کو سچ بتا  کر چیز فروخت کرے۔

   شے میں عیب کاعلم ہونے  کےبعداستعمال کرنے سے واپسی کااختیارساقط ہونے کے بارے میں بدائع الصنائع میں ہے:”الحاصل:أن کل تصرف یوجدمن المشتری فی المشتری بعدالعلم بالعیب یدل علی الرضابالعیب یسقط الخیارویلزم البیع۔۔۔وإن كان المشترى دارا فسكنها بعد ما علم بالعيب أو رم منها شيئا أو هدم يسقط خياره“ترجمہ:حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہروہ تصرف جوعیب پرمطلع ہونے کے بعد خریدارکی طرف سے خریدی گئی چیزمیں پایاجاتاہے وہ رضابالعیب پردلالت کرتاہے ،جس سے واپسی کااختیارساقط ہوجاتاہے اوربیع لازم ہوجاتی ہے۔۔۔اوراگرخریدکردہ مکان میں عیب پرمطلع ہونے کے بعدسکونت اختیارکی یااس کی مرمت کروائی یااسے ڈھادیا، تو اب خریدارکے لیے واپسی کااختیارساقط ہوگیا۔ (بدائع الصنائع، کتاب البیوع،جلد04، صفحہ557،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”الاصل أن المشتری متی تصرف فی المشتری بعدالعلم بالعیب تصرف الملک بطل حقہ فی الردواذاشتری دابۃ فوجدبھاجرحا فداواھااورکبھالحاجتہ فلیس لہ ان یردھا“ترجمہ:قانون یہ ہے کہ خریدارنے جب خریدی گئی چیزمیں عیب پراطلاع پانے کے بعدمالکانہ تصرف کیا، تواس سےواپسی کاحق باطل ہوجائے گااورجب کسی شخص نے جانورخریدااوراسے بیمارپایا،اس کاعلاج کیایااپنے کام کے لیے اس پرسوارہوا،تواب خریدارکے لیے جائزنہیں کہ اسے واپس کرے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب البیوع،الباب الثامن، جلد03،صفحہ75،مطبوعہ کوئٹہ)

   نقصان لینے کااختیارساقط ہونے کے بارے میں مبسوط میں ہے:”أن قبل العلم بالعيب لم يصر هو راضيا بالعيب فيرجع بالنقصان وبعد العلم بالعيب يصير هو بالإقدام على هذا الفعل راضيا بالعيب ولا يرجع بالنقصان“ترجمہ:عیب پرمطلع ہونے سے پہلے (کام کرنے سے)عیب پرراضی ہوناقرارنہیں دیاجائے گااورعیب پرمطلع ہونے کے بعداس فعل پراقدام کرنے سے عیب پرراضی ہوناقرار دیاجائے گااورخریداررجوع بالنقصان نہیں کرے گا۔(المبسوط للسرخسی،جلد13،صفحہ99،مطبوعہ دارالمعرفہ،بیروت)

   محیط برہانی میں ہے:والرضا بالعيب يسقط حق المشتری في الرد وفي الرجوع بنقصان العيب ترجمہ:عیب پرراضی ہوناعیب زدہ چیزکوواپس کرنے اوررجوع بالنقصان کرنے میں خریدارکے حق کوساقط کردیتاہے۔   (محیط برھانی،جلد06،صفحہ564،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   رجوع بالنقصان کی تفسیربیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”یہ جابجاکہاگیاہے کہ عیب سے جونقصان ہے وہ لے گا، اس کی صورت یہ ہے کہ اس چیزکوجانچنے والوں کے پاس پیش کیاجائے، اس کی قیمت کاوہ اندازہ کریں کہ اگرعیب نہ ہوتا،تویہ قیمت تھی اورعیب کے ہوتے ہوئے یہ قیمت ہے ،دونوں میں جوفرق ہے وہ مشتری بائع سے لے گا، مثلاً:عیب ہے ،توآٹھ روپے قیمت ہے نہ ہوتا، تودس روپے تھی دوروپے بائع سے لے۔“(بھارشریعت،جلد02،صفحہ689،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   عیب کی تعریف کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے:’’قال القدوری  في كتابه: كل ما يوجب نقصانا فی الثمن في عادة التجار فهو عيب وذكر شيخ الإسلام خواهر زاده :ان ما يوجب نقصانا في العين من حيث المشاهدة والعيان كالشلل في اطراف الحيوان، والهشم في الاواني او يوجب نقصانا في منافع العين فهو عيب وما لا يوجب نقصانا فيهما يعتبر فيه عرف الناس ان عدوه عيبا كان عيبا والا لا هكذا في المحيط‘‘ترجمہ: امام قدور ی نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ ہر وہ چیز جو  عادت ِ تجار میں ثمن میں کمی کا سبب ہو ،تو وہ عیب ہے اور شیخ الاسلام خواہر زادہ نے بیان کیا کہ ہر وہ چیز جو دیکھنے میں عین کے اندرنقصان  کو لازم کرے جیساکہ حیوان کے اعضاء کا بیکار ہونا اور برتنوں کا ٹوٹا ہوا ہونا،یا پھر عین کے منافع میں نقصان کا سبب ہو، تو وہ عیب ہے اور جو ان دونوں میں نقصان کا سبب نہ ہو، تو اس میں لوگوں کے عرف کو دیکھا جائے گا،اگر لوگ اس کو عیب شمار کرتے ہیں، تو وہ عیب ہو گا ،ورنہ نہیں،ایسے ہی محیط برہانی میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب البیوع، جلد3، صفحہ72، مطبوعہ کراچی)

   بغیر بتائے عیب دارچیزفروخت کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ہے:”عن عقبۃ بن عامر قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول المسلم اخو المسلم ولایحل لمسلم باع من اخیہ بیعا فیہ عیب الابینہ لہ“ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے اورجب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، توجب تک وہ عیب بیان نہ کردے،تو اسے بیچنا حلال نہیں۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،جلد01،صفحہ162،مطبوعہ کراچی)

   المعجم الکبیر میں ہے:”عن واثلۃ بن الاسقع قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  یقول من باع عیبا لم یبینہ لم یزل فی مقت اللہ او قال لم تزل الملائکۃ تلعنہ“ترجمہ:حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کابیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص عیب زدہ چیز کوبغیر عیب بتائے بیچے،  وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے،یافرمایا:اس پر ہمیشہ فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ (المعجم الکبیرللطبرانی،جلد22،صفحہ65،مطبوعہ قاھرہ)

   بہارشریعت میں ہے:”مبیع میں عیب ہو، تو اس کا ظاہر کردینا بائع(بیچنے والے)پر واجب ہے ،چھپانا حرام وگناہ ِکبیرہ ہے۔یوہیں ثمن کا عیب مشتری پر ظاہر کر دینا واجب ہے۔“(بھارشریعت،جلد02،صفحہ673،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   جھوٹ بولنے والے پراللہ کی لعنت ہونے کے بارے میں قرآن مجیدمیں ہے:﴿  لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔‘‘      (القرآن،سورۃ آل عمران،آیت61)

   رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’ایاکم والکذب،فانہ مجانب الایمان‘‘ ترجمہ:اورجھوٹ سے بچو، کیونکہ یہ ایما ن کے مخالف ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الادب،جلد5،صفحہ236،مکتبۃ الرشد ،الریاض)

   دھوکا دینے کی ممانعت کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من حمل علینا السلاح فلیس منا ومن غشنا فلیس منا‘‘ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا،  وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا،  وہ بھی ہم میں سے نہیں۔  (صحیح المسلم ،کتاب الایمان، جلد01، صفحہ70، مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم