Game Zone Ka Kaam Karna Kaisa?

گیم زون کا کام کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کوئی شخص گیم زون(Game zone) کھولنا چاہتا ہے جس میں لوگ آکرکمپیوٹر گیمز کھیلیں گے اورجتنی دیر بیٹھیں گے اس کے پیسے دیں گے۔ کیا یہ کمائی جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گیم زون سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز نہیں کیونکہ یہ لہو و لعب ہے اور ضروری نہیں کہ معتبر دنیاوی منفعت کے لئے ہی لوگ اسے استعمال کرتے ہوں پھر ایسی چیزوں میں میوزک اور غیر شرعی امور بھی لازم ہوتے ہیں لہٰذا ان کے لہو و لعب ہونے میں شک نہیں اور لہوو لعب کی اُجرت جائز نہیں۔

   اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے :(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ) ترجمۂ کنزُ الایمان : اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے۔ (پ21 ، لقمان : 6)

   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں : “ ہر کھیل اور عبث فعل جس میں نہ کوئی غرضِ دین نہ کوئی منفعتِ جائزہ دنیوی ہو ، سب مکروہ و بے جا ہیں ، کوئی کم کوئی زیادہ۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 24 / 78)

   بحر الرائق میں ہے : ”ولا یجوز الاجارۃ علی شیئ من الغناء واللھو “ ترجمہ : گانے اور لہو (یعنی کھیل اور فضول کاموں) پر اجارہ جائز نہیں۔ (بحر الرائق ، 8 / 36)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم