Dukandar Ka Customer ko Saman Me Izafa Kar Ke Dena Kaisa

دکاندار کا کسٹمر کو سامان میں اضافہ کرکے دینا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12272

تاریخ اجراء:        01 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/01جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دکاندار اگر اپنی مرضی سے سامان میں کچھ زیادتی کردے، تو کیا وہ زیادتی میرے لیے حلال ہوگی؟ مثلاً میں نے دکاندار سے 3کلو چاول  خریدے اب دکاندار بجائے 3 کلو دینے چاول دینے کے اپنی مرضی سے مجھے  3 کلو 10 گرام چاول دیتا ہے یعنی 10 گرام زیادہ ، تو کیا یہ 10 گرام چاول میرے لئے حلال ہوں گے؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خریدار (Buyer) کا باہمی رضامندی (mutual understanding)سے چیز کی طے ہونے والی قیمت (Default price) میں اضافہ کرنا، یونہی بیچنے والے (Seller)کا گاہگ (Customer)کو سامان (Goods)میں اضافہ کرکے دینا شرعاً جائز ہے۔  لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے  وہ اضافی چاول لینا حلال ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔

   مختصر القدوری  میں ہے: ويجوز للمشتري أن يزيد البائع في الثمن ويجوز للبائع أن يزيد في المبيعیعنی مشتری کا بائع کے لیے ثمن میں اضافہ کرنا شرعاً جائز ہے، یونہی  بائع کا مشتری کے لئے مبیع میں اضافہ کرنا جائز ہے ۔(مختصر القدوری، کتاب البیوع، ص138، ضیاء العلوم، راولپنڈی)

   الاختیارلتعلیل المختار کے متن مختارمیں ہے:”تجوز الزیادۃ في الثمن والسلعۃ “ یعنی ثمن اور سامان میں اضافہ کرنا جائز ہے۔(الاختیار لتعلیل المختار ،ج 01، ص239،مطبوعہ پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ” بکر کمھار سے جس وقت لوٹے مول لیتا ہے کہتا ہے مسجد کے لئے لئے جاتے ہیں  زیادہ دینا، کمہار دوچار لوٹے پر زیادہ کردیتا ہے، اور اگر مسجد کا نام نہ لیا جائے جب بھی اسی قدر ملتے، اوراگر بھاؤ سے زیادہ بھی دے تو زیادہ لوٹے کیسا ہے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”اگر وہ اپنی خوشی سے زیادہ دے کوئی حرج نہیں ، مگر کمہاراگر کافر ہے تو مسجد کے لئے اس سے مانگنا نہ چا ہئے کہ گویا مسجد اور مسلمان پر احسان سمجھے گا۔ واﷲ تعالٰی  اعلم۔  (فتاوٰی رضویہ،ج17،ص262،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” مشتری نے بائع کے لیے ثمن میں کچھ اضافہ کردیا بائع نے مبیع میں اضافہ کردیا یہ جائز ہے ۔ ( بہار شریعت ، ج 02، ص 750، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم