Digital Prize Bond Kharidna Kaisa ?

ڈیجیٹل پرائز بانڈ خریدنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Faj-7865

تاریخ اجراء: 24محرم الحرام 1445 ھ/12اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز  Central Directorate of National Savings (CDNS)  نے ایک نئی  ڈیجیٹل  سرمایہ کاری پروڈکٹ  متعارف کروائی ہے ، جس کو  ڈیجیٹل پرائز بانڈ(DPB) کہا جاتا ہے۔  اس کے SOPs میں جو  اس کی خریداری اور دیگر معاملات کا طریقہ درج ہے ،وہ یہ  ہے کہ اولاً ایک ڈیجیٹل سیونگ اکاؤنٹ  کھلوایا جائے گا ، اس اکاؤنٹ کے ذریعہ  ڈیجیٹل پرائز بانڈ کی خریداری ہوگی ۔   پہلے سے موجود  سیونگ اکاؤنٹ کے ذریعہ بھی خریداری کر سکتے ہیں ۔  ان دو اکاؤنٹ ہولڈرز کے علاوہ کوئی اور ڈیجیٹل پرائز بانڈز ( DPB) نہیں خرید سکتا ۔  کم از کم  خریداری 500 روپے کی ہوگی ، زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ خریداری کے بعد خریدار کو  کوئی Physical instrument (خارجی وجود رکھنے والی چیزمثلا:پرچی وغیرہ)   نہیں دی جائے گی ، بلکہ  ایک نمبر اس کے  نام پر  رجسٹر کردیا جائے گا ، جس کی تفصیل  متعلقہ موبائل ایپ(CDNS) پر دستیاب ہوگی  اور پھر یہی نمبر قرعہ اندازی میں شامل کیا جائےگا ،  انعام نکلنے کی صورت میں   انعام  اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیا جائے گا  اور سیونگ اکاؤنٹ ہونے کی بنا پر (DPB) ہولڈر کو ہر ماہ نفع بھی ملتا رہے گا ۔

   جس نے ڈیجیٹل پرائز بانڈز ( DPB) خریدا ہے، وہ کسی کو یہ  بانڈز بیچ نہیں سکتا ، نہ ہی ویسے  کسی  کو دے سکتا ہے ،الغرض جب تک وہ حیات ہے ، تب تک کسی طریقہ سے  اس میں انتقال ملکیت کی صورت بن سکتی ہے  اور نہ ہی  کسی کو ضمانت کے طور پر رکھوا سکتا ہے ۔  جس کے نام پر یہ رجسٹرڈ ہیں،اس کے نام پر ہی رہیں گے،ہاں البتہ اگر (DPB) ہولڈر Withdraw ہونا چاہے،توجس اکاؤنٹ کے ذریعہ جہاں سے خریداری کی ہے ،  وہاں   (DPB) واپس کروا دے ، اس کو اپنی رقم واپس مل جائے گی ۔

   اس مکمل تفصیل کے مطابق  سوال یہ ہے کہ  کیا ڈیجیٹل پرائز بانڈز( DPB) کی خریداری جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ڈیجیٹل پرائز بانڈ ( DPB)  ایک سودی بانڈ ہے ،  اس پر ملنے والا مشروط نفع سود ہے، لہذا اس کی خریداری ناجائز  و حرام ہے ۔

   تفصیل اس کی یہ ہے کہ   ڈیجیٹل پرائز بانڈز (DPB) میں کوئی چیز خریدی، بیچی  نہیں جاتی ہے ، بلکہ اکاؤنٹ میں رقم جمع کروا   کر  اس کا ایک کوڈ وصول کیا جاتا ہے   جوکہ مال نہیں ہوتا  اسی وجہ سے  اس کی خریدوفروخت اور  انتقال ملکیت کی صورت نہیں بنتی اور جو اس کے بدلے  رقم جمع کروائی گئی ہے ، وہ  قرض ہے ۔  اس کی دلیل یہ ہے کہ ڈیجیٹل پرائز بانڈز (DPB) ہولڈر کی طرف سے یہ رقم خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہےاور جب وہ  Withdraw ہونا چاہے،  تو  جہاں اس نے رقم جمع کروائی ہے ، وہاں سے اپنی  رقم  کی مثل وصول کر سکتا ہے،اسی کا نام قرض ہے ۔  جب  جمع شدہ رقم قرض ہے ،تو  ہر ماہ ملنے والا نفع اورقرعہ اندازی میں نام کی شمولیت اور  اس پرملنے والا انعام اسی قرض پر  مشروط نفع ہے   اور  قرض پر   مشروط نفع کو حدیث مبارکہ میں  سود فرمایا گیا ہے ، لہذا  ڈیجیٹل پرائز بانڈز (DPB) سودی ہے ، اس کی خریداری ناجائز و حرام ہے ۔

   مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سودی ڈیجیٹل پرائز بانڈز  (DPB) کی خریداری سے بچیں   کیونکہ سودی لین دین جاری رکھنے والے کے لیے  قرآن پاک میں  یہ وعید ہے کہ    وہ اللہ  پاک  اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جنگ کا یقین کر لے  اور کسی مسلمان  کی کیا مجال کہ وہ اللہ پاک اور رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کاتصور بھی کرے؟ نیز  احادیث مبارکہ میں سود خور  کو ملعون  اور لائق جہنم  فرمایا گیا ہے ، مسلمان کی  یہ شان نہیں کہ وہ  ایک ظاہری نفع کی لالچ میں  اتنی بڑی بڑی وعیدات   اپنے سر لے ۔

   اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ  ؕذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا  الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواترجمہ کنزالایمان:’’وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیاہو، یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور  اللہ  نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سُود۔ ‘‘(سورۃ البقرہ ، آیت 275)

   مزید ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖترجمہ کنز الایمان :’’اے ایمان والو ! اللہ  سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود ، اگر مسلمان ہو، پھر اگر ایسا نہ کرو، تو یقین کرلو  اللہ  اور  اللہ  کے رسول سے لڑائی کا۔(سورۃ البقرہ، آیت 278،279)

   حضرت جابررضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :’’ لعن رسول  اللہ  صلى  اللہ  عليه وسلم آكل الربا  ومؤكله ‘‘ یعنی  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سودکھانے والےاور  سود کھلانے  والے پر لعنت فرمائی۔(صحیح المسلم، کتاب البیوع،جلد3، صفحہ 1219، بیروت)

   ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ومن أكل درهما من ربا فهو مثل ثلاث وثلاثين زنية، ومن نبت لحمه من السحت فالنار أولى به یعنی جس نے سود کا ایک درہم کھایا تو وہ  تینتیس بار زنا کرنے کے برابر ہےاور جس کا گوشت حرام سے بڑھے تو نارجہنم اس کی زیادہ مستحق ہے۔

(المعجم الاوسط ، جلد3، صفحہ  211، دار الحرمین ، قاھرہ)

   حدیث پاک میں ہے :”کل قرض جر منفعۃ فھو ربا “ یعنی جو قرض  نفع لائے وہ سود ہے ۔(کنز العمال ، الکتاب الثانی ، الباب الثانی ، جلد6، صفحہ238، مؤسسۃ الرسالہ)

   علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :”كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا“ یعنی ہر وہ قرض جو مشروط نفع لائے حرام ہے ۔ (رد المحتار مع الدرالمختار ، کتاب القرض ، جلد5 ، صفحہ166، مطبوعہ  بیروت )

   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :”بر بنائے قرض کسی قسم کانفع لینا مطلقاً سودوحرام ہے،حدیث میں ہے، حضورسیدعالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’کل قرض جرمنفعۃ فھوربا ‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد25 ، صفحہ223، رضا فاؤنڈیشن   ،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”قرض دیا اور ٹھہرالیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا ،جیسا کہ آج کل سود خواروں کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں، یہ حرام ہے، یوہیں کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ، ناجائز ہے۔(بھار شریعت  ، جلد2 ، صفحہ759، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم