Deal Hone Ke Baad Khaam Maal Ki Qeemat Barhne Ki Wajah Se Ziyada Qeemat Ka Mutalba Kaisa?

ڈیل ہونے کے بعد خام مال کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ قیمت کا مطالبہ کیسا ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0112

تاریخ اجراء:06جمادی الاولی1445ھ/21نومبر2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک زیر تعمیر عمارت میں دو سال پہلے بلڈر (Builder)سے 63 لاکھ روپے کا ایک فلیٹ بک کروایا تھا اور کچھ رقم ایڈوانس کے طور پر دے چکا تھا۔  اب سیمنٹ اور سریے کے ریٹ کافی زیادہ  بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے بلڈر کی جانب سے مزید رقم کا مطالبہ کیا جارہا ہے، کیا بلڈر کی طرف سے  سودا ہوجانے کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بلڈر کا سوداطے ہوجانے کے بعد مزید رقم طلب کرنا جائز نہیں۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ زیر تعمیر بلڈنگ میں فلیٹ بک کروانا ’’بیع استصناع‘‘ ہے، اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق بیع استصناع کرنے سے عقد لازم ہوجاتا ہے، خریداراوربیچنے والے میں سے کوئی بھی فریق اپنےمعاہدے سے نہیں پھر سکتا۔  لہٰذا مذکورہ صورت میں جب خرید و فروخت کے وقت ایک قیمت طے کرلی گئی تو اب  اسی  طے شدہ قیمت  کے بدلے  فلیٹ تیارکرکے دینابلڈر کی ذمہ داری ہے ،اسےخود سے  ریٹ بڑھانے کا شرعاً اختیار نہیں ہے۔ تاہم اگر دونوں فریق باہمی رضامندی سے پرانے عقدکوختم کرکے نیاسودا کریں توآپس کی رضامندی سے نئی قیمت طے کرنے  کی گنجائش ہے۔

   ہدایہ میں ہے:’’اذا حصل الايجاب والقبول لزم البيع، ولا خيار لواحد منهما‘‘ یعنی: جب ایجاب و قبول ہوجائے تو بیع لازم ہو گئی اور  بائع اور مشتری کسی کو بھی یکطرفہ طور پر معاہدے سے پھرنےکا اختیار نہیں ۔ (الهدايه مع بناية،ج08،ص11،بيروت)

   بیع استصناع کے ابتداءً ہی لازم ہونے سے  متعلق تبیین الحقائق میں ہے:’’وعن ابى يوسف انه لاخيار لواحد منهما‘‘یعنی: امام ابو یوسف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ معاہدہ بیع ہوجانے کے بعدصانع اور مستصنع،  کسی کو معاہدے سے پھرنے کااختیار نہیں۔(تبيين الحقائق،ج04،ص124،مطبوعه مصر)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے ایک مقام پر معاہدہ ہوجانے کے بعد سامان کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے بائع کے معاہدے سے پھر جانے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:”بیع ایجاب وقبول سے تمام ہوجاتی  ہے، اور جب بیع صحیح شرعی واقع ہولے تو اس کے بعد بائع یا مشتری کسی کو بے رضامندی دوسرے کے ، اس سے یوں پھر جانا روا نہیں، نہ اس کے پھر نے سے وہ معاہدہ جو مکمل ہوچکا، ٹوٹ سکتا ہے، زید پر لازم  ہے کہ مال فروخت شدہ تمام وکمال خریدار کو دے۔“(فتاوی رضویہ ،ج17،ص87، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بہار شریعت میں ہے:”جب ایجاب وقبول دونوں ہوچکے تو بیع تمام ولازم ہوگئی۔ اب کسی کو دوسرے کی رضا مندی کے بغیر رَدکردینے کا اختیارنہ رہا۔(بہار شریعت،ج2،ص622،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم