Daraz App Par Review Barhane Ke Liye Product Ranking Karwane Ka Hukum?

دراز ایپ پر ریویو بڑھانے کے لیے پروڈکٹ رینکنگ کروانے کا حکم؟

مجیب:ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Grw-341

تاریخ اجراء:05ذوالقعدۃالحرام1444ھ/26مئی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دراز ایپ(DARAZ APP)پر بیچنے کے لیے جب ہم کوئی پروڈکٹ لگاتے ہیں، تو وہ آخری صفحےپر، یا یوں کہیے کہ ہزار  وں یا لاکھوں پروڈکٹ  کے درمیان کہیں ہوتی ہے ، جب اس چیز کے بارے میں کوئی سرچ کرتا ہے،تو ہماری چیز ابتدائی لسٹ میں کسٹمر کے سامنے ظاہر نہیں ہوتی ، اور کسٹمر عموماً شروع  میں ظاہر ہونے والی ہی 10 ،15 میں سے کسی  ایک کا انتخاب کر لیتا ہے ، یوں ہماری چیز فروخت نہیں ہوتی اور اس کے اوپر  ریویوز نہیں ملتے،لہٰذا ہم نئے سیلرزاپنی پروڈکٹ کو شروع میں لانے کےلیے پروڈکٹ رینکنگ PRODUCT RANKING کرواتے ہیں، پروڈکٹ  رینکنگ کا  ایک طریقہ  TVVRO:  ہے، اس  کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص کے  مثلاً:50اکاؤنٹس  ہوتے ہیں، ہم ا سے ایک پروڈکٹ  سیل کرتے ہیں، اسی شرط کے ساتھ کہ آپ نےا چھی رائے دینی ہے،نیز اس سے ہم یہ بھی طے کرتے ہیں کہ آپ اپنے باقی 50 اکاؤنٹس سے بھی اچھی  رائے  دیں اور  ہر  اکاؤنٹ پر رائے دینے کی قیمت طے ہو جاتی ہے، مگر دیگر اکاؤنٹس سے وہ  ہم سے کوئی چیز خریدتا نہیں، لیکن  ریویو دینے کے لیے پہلے خریداری ہونا چونکہ ضروری ہوتا ہے ،اس لیے پہلے یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان اکاؤنٹس سے  ہمیں خریداری کا آرڈر دے، ہم  اس کے آرڈر  کے مطابق اس چیز کا بیچناظاہر کریں، تو وہ ریویو دے سکے گا یعنی دیگراکاؤنٹس سے کوئی خریداری نہیں ہوئی، مگر  ریویوزدینے کے لیے  اس میں خریدو فروخت کی ظاہری  صورت کو اپنانا پڑتا ہے، جبکہ  حقیقت میں  ان اکاؤنٹس  سےنہ  ہم  اس کو کوئی  چیز دیتے ہیں، نہ ہی وہ ہمیں ان کے  بدلے کوئی قیمت ادا کرتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ  اپنی پروڈکٹ  پہلے پیج پر لانے کے لیے اور ریویوز بڑھانے کےلیے مذکورہ طریقہ کار(پروڈکٹ رینکنگ)  اختیار کرنا اور ان کو پیسے دینا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟      

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پروڈکٹ رینکنگ کا مذکورہ بالا  طریقہ  جھوٹ، دھوکے اور ناجائز صورتوں پر مشتمل ہے، لہذا اس طرح پروڈکٹ رینکنگ کرنے اور کروانے  کی شرعاً اجازت نہیں ،ایسا کرنےوالے گنہگار ہوں گے۔ اور اس پروڈکٹ  رینکنگ کے عوض پیسے دینا اور لینا بھی جائز نہیں ۔

   تفصیل اس میں یہ ہے کہ

   (1) جھوٹ:

   پروڈکٹ  رینکنگ کا یہ طریقہ جھوٹ  پر مشتمل ہے کہ  جن اکاؤنٹس سے  اس نے کوئی چیز خریدی نہیں اور آپ نے اس کو کوئی چیز بیچی نہیں،  مگر ان میں  خریدو فروخت ہونا ظاہر کیا گیا، یہ  خلاف واقع بات ہے اور خلاف واقع بات جھوٹ ہوتی ہے ،یونہی  اس  خریداری کے اوپر   رائے دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنا کہ میں نے خریدی ہے اور اس پر  میری یہ رائے ہے یہ   بھی خلاف واقع  بات ، جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ناجائزو حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،قرآن مجید میں جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی اورکثیر احادیث میں اس کی مذمت ،برائی اور وعید بیان فرمائی  گئی۔ اور جھوٹ بول کر تجارت کرنے والے  تاجر کوحدیث  میں  بدکار فرمایا گیا ہے۔

   حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلا من نتن ما جاء به“یعنی جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تو اس کےجھوٹ کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔ (سنن الترمذی،باب ما جاء فی ا لصدق و الکذب،ج4،ص307شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي ،مصر)

   صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نقل فرماتے ہیں: ’’امام احمد و ابن خزیمہ و حاکم و طبرانی و بیہقی عبدالرحمن بن شبل اور طبرانی معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ’’تجار بدکار ہیں۔‘‘ لوگوں نے عرض کی، یارسول اﷲ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا اﷲ تعالیٰ نے بیع حلال نہیں کی ہے؟ فرمایا: ’’ہاں! بیع حلال ہے ولیکن یہ لوگ بات کرنے میں جھوٹ بولتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں، اس میں جھوٹے ہوتے ہیں۔‘‘(بھا رشریعت ،ج2،حصہ 11،صفحہ 612،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   (2)  دھوکا:

   پروڈکٹ  رینکنگ کا یہ طریقہ دھوکا دینے پر مشتمل ہے کہ اس میں فیک اکاؤنٹس سے  فیک طریقے سے خریداری  اور ریویوز کو بڑھا دیا جاتا ہے جس سے  اس چیز کے انتخاب اور اس کی قیمت میں کسٹمرز کو دھوکا ہوتا ہے کہ  دیگر کسٹمر ز  کسی چیز کی  زیادہ خریداری  اور اس کے ریویوز و اچھی   رائے کو دیکھ کر گمان کر لیتے ہیں  کہ اتنے زیادہ لوگوں نے اسے خریدا اور پسند کیا ہے  اسی بنیاد پر وہ چیز کو عمدہ سمجھتے  ہوئے منتخب کر لیتے ہیں اور بسا اوقات زیاد ہ اچھے ریویوز دیکھ کر زیادہ قیمت دینے پر بھی رضا مند ہو جاتے ہیں ، اگر کسٹمر کو معلوم ہو کہ یہ سب فیک طریقے سے بڑھایا گیا  ہے،تو وہ ہر گز اس کو لینے پر راضی نہیں ہو گا ۔ اور دھوکا دینا بھی ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔

   دھوکے   کی مذمت اور اس کے ناجائز و حرام ہونے میں  بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، چنانچہ  رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ وعلیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:لیس منا من غشنا وہ ہم میں سے نہیں جو ہمیں دھوکا دے۔(صحیح مسلم، جلد 1،صفحہ  70، سنن ابو داؤد، جلد 2 ،صفحہ 133مطبوعہ لاھور ) 

   اس حدیث پاک کے تحت فیض القدیر میں ہے :’’والغش ستر حال الشئ‘‘یعنی دھوکا سے مراد کسی شی کی اصل حالت کو چھپاناہے۔(فیض القدیر،جلد6،صفحہ240،مطبوعہ بیروت)

   ایک اورحدیث مبارک میں ہے:’’من غشنا فلیس منا والمکروالخداع فی النار‘‘ ترجمہ:جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں اور مکرکرنے والا اور دھوکا دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔(جامع الصغیرمع فیض القدیر،ج6،ص241،مطبوعہ بیروت)

   (ب) دھوکا دہی کے پہلو سے یہ عمل’’بیعِ نجش‘‘ کی طرح ہے، جس میں   خریداری مقصد نہیں ہوتی، لیکن دوسرے خریدار کو راغب کرنے کے لیے وہ بظاہر  خریداری  والا معاملہ کرتا ہے  یا اس چیز کے وہ اوصاف بیان کرتا ہے جو اس میں نہیں، تاکہ  دوسرا شخص اس سے دھوکا کھائے اور اسے خرید لے ، پرو ڈکٹ رینکنگ کے اس طریقے میں بھی یہی کیا جاتا ہے کہ  خریداری مقصود نہیں،مگر دیگر کو راغب کرنے کے لیے متعدد  اکاؤنٹس سے خریداری  والا بظاہر معاملہ اپنایا جاتا ہے ، اور اس پر اچھی رائے دینی ہوتی ہے  اور اچھی رائے دینے میں بھی  بسا اوقات وہ بات  و خوبی بیان کی جاتی ہے  جو چیز میں نہیں ہوتی ۔لہذا یہ جدید صورت بھی بیع نجش کی ماند ہی  ہے اور’’بیع نجش‘‘کی ممانعت تو احادیث شریفہ  میں صراحت کے ساتھ آئی ہے،  لہذا اس کی رو  سے بھی پروڈكٹ رینکنگ کا یہ    عمل جائز نہیں ۔

   بیع نجش کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:’’نهى النبي صلى اللہ عليه وسلم عن النجش‘‘ ترجمہ: سرکار  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں نجش سے منع فرمایا۔(صحیح البخاری،جلد1،صفحہ287،مطبوعہ کراچی)

   علامہ طیبی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” وأصله الإغراء والتحريض، وإنما نهي عنه لما فيه من التغرير ترجمہ:بیع نجش کی اصل دھوکا دینا اور دوسرے کو ابھارنا ہے اور اس سے اس لیے منع فرمایا گیا  کہ اس میں دھوکا دینا پایا جاتاہے۔(شرح المشکاۃ  للطیبی، جلد07،صفحہ 2143، مطبوعہ الریاض)

   حاشیہ شلبی  میں ہے :’’ قال الأتقاني والمعنى في كراهية النجش الغرور والخداع‘‘ یعنی بیع نجش  کی کراہت کی وجہ  غرر اور دھوکا  ہے۔(حاشیۃ الشلبی علی ھامش  تبیین الحقائق،ج4،ص67،مطبوعہ القاھرہ)

   مبسوط سرخسی میں ہے :’’ إنما يقصد أن يرغب الغير في شرائها به وهذا من باب الخداع والغرور‘‘ یعنی بیع نجش میں خریداری اس کا مقصد نہیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ  غیر کو اس قیمت پر  خریداری میں راغب کرے ،لہذا یہ  غرر و دھوکا دینے کے باب  سے تعلق رکھتا ہے ۔(مبسوط سرخسی،ج15،ص76،دار المعرفہ، بیروت)

   بدائع الصنائع میں  حدیث مبارک سے نجش کی ممانعت بیان کرنے کے بعد  فرمایا :’’ لأنه احتيال للإضرار بأخيه المسلم‘‘نجش اس وجہ سے بھی ناجائز ہے کہ یہ مسلمان بھائی کو نقصان پہنچانے کا ایک حیلہ ہے ۔(بدائع الصنائع،ج5،ص233،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   درمختاراور رد المحتار میں ہے :’’كره النجش(لحديث الصحيحين) ۔۔: أن يزيد ولا يريد الشراء أو يمدحه بما ليس فيه ليروجه(تفسير آخر، عبر عنه في النهر: بقيل نقلا عن القرماني في شرح المقدمة قال: وفي القاموس ما يفيده )‘‘  فی القو سین عبارۃ من  رد المحتار ‘‘ یعنی بیع نجش مکروہ ہے  اور نجش یہ ہے کہ ثمن بڑھائے ،مگر خریدنا نہ چاہتا ہو یا  چیز کی تعریف میں وہ کہے جو اس میں نہیں پائی جاتی اس لیے  کہ اس چیز کو وہ  فروغ دے ۔ یہ نجش کی دوسری تفسیر ہے ۔’’نہر‘‘ میں اسے قرمانی سے نقل کرتے ہوئے قیل سے تعبیر کیا ، اور قاموس میں  ایسی عبارت ہے، جو اس تفسیر کا افادہ کرتی ہے ۔(رد المحتار،ج5،ص101،دار الفکر)

   صاحب بحر  بیع نجش کے مکروہ تحریمی، گناہ ہونے کی صراحت کرنے اور اس پر دلائل دینےکے بعد نجش کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ وفي القاموس النجش أن تواطئ رجلا إذا أراد بيعا أن تمدحه أو أن يريد الإنسان أن يبيع بياعة فتساومه بها بثمن كثير لينظر إليك ناظر فيقع فيها أو أن تنفر الناس عن الشيء إلى غيره‘‘یعنی نجش یہ ہےکہ جب کوئی بیع کا ارادہ رکھتا ہو،  تو ا سے اس چیز کی طرف روندے (جھکائے ،کھینچے) بایں طور کہ تو چیز کی تعریف کرے  یا  نجش یہ ہے  کہ کوئی انسان بیع کرنا چاہتا ہے، تو اس  کے ساتھ کثیر ثمن کے ساتھ سودا  کرے ،تاکہ  دیکھنے والا یہ دیکھ کر  اس بیع میں واقع ہو جائے یا  یہ ہے کہ تو لوگوں کو کسی چیز سے اس کے غیر کی طرف بھگائے۔(بحر الرائق ،ج6،ص107،دار الکتاب الاسلامی)

   موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے :’’ أصل النجش: الاستتار؛ لأن الناجش يستر قصده، ومنه يقال للصائد: ناجش لاستتاره. وقد عرفه الفقهاء بأن يزيد الرجل في الثمن ولا يريد الشراء، ليرغب غيره. أو أن يمدح المبيع بما ليس فيه ليروجه‘‘یعنی   نجش کی اصل پردہ ڈالنا ، چھپانا ہے ،کیونکہ ناجش بھی اپنا قصد چھپا لیتاہے ،اس سے شکار کرنے والے کو بھی ناجش کہا جاتا ہے، کیونکہ  وہ بھی اپنا قصد چھپا لیتا ہے  اور فقہا نے اس کی یوں تعریف کی ہے کہ  کوئی شخص خریدنا نہ چا ہتاہو، مگرثمن بڑھائے تاکہ وہ دیگر کو  اس چیز کی خریداری کی طرف  رغبت دے  یا مبیع کا وہ وصف بیان کرے جو اس میں نہیں تاکہ اس چیز کو فروغ دے۔(موسوعہ فقھیہ کویتیہ،ج9،ص220، دارالسلاسل ، الكويت)

   مزید اسی میں ہے :’’ سمي بذلك لأن الناجش يثير الرغبة في السلعة، قال في النهاية: هو أن يمدح السلعة لينفقها ويروجها ‘‘ نجش  نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ ناجش سامان میں  رغبت پر ابھارتا ہے  اور نہایہ میں ہے کہ وہ سامان کی تعریف اس لیے کرتا ہے ،تا کہ اسے رائج کرے ،فروغ دے۔ (موسوعہ فقھیہ کویتیہ ،ج37،ص159،  مطابع دار الصفوة ،مصر)

   (3) شرط فاسد:

   پروڈکٹ  رینکنگ کا یہ طریقہ ناجائز شرط پر  بھی مشتمل ہے۔کہ پہلی خریداری  جو باقاعدہ ہوتی ہے اور چیز بھی خریدار کے سپر د کی جاتی ہے، اس میں یہ  طے کیا جا رہا ہے کہ  یہ کسٹمر اپنے دیگر اکاؤنٹ سے  اچھی را ئے دے،  تو اس کو اتنے پیسے دیں گے ،تو یہ پہلی بیع میں اجارے کی شرط ہے  اور بیع میں اجارہ کی شرط لگانا ناجائز  اور عقد کو فاسد کرنے والی ہے  کہ عقد بیع اس کا تقاضا نہیں کرتا اور  اس میں عاقدین  میں سے ایک کا نفع ہے اورایسے عقدمیں کوئی ایسی شرط لگانا ،جس کاعقدتقاضانہ کرے اوراس میں ایگریمنٹ کرنے والوں میں سے کسی ایک کانفع ہو،عقد کو فاسد کر دیتا ہے ۔

   حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں”ان  النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن بیع و شرط“ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خریداری اور شرط سے منع فرمایا ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانی، باب العین ، من اسمہ عبد اللہ، ج4،ص335،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

   تبیین الحقائق میں ہے:” أن كل شرط لا يقتضيه العقد وهو غير ملائم له ولم يرد الشرع بجوازه ولم يجز التعامل فيه وفيه منفعة لأهل الاستحقاق مفسد“ترجمہ:ہر وہ شرط جس کا نہ تو عقد تقاضا کر رہا ہو اور وہ عقد کے مناسب بھی نہ ہو ،شرع سے اس کا جواز بھی ثابت نہ ہو اور اس پر تعامل بھی نہ ہو اور اس میں اہل استحقاق کی منفعت ہو تو ایسی شرط بیع کو فاسد کر دیتی ہے۔(تبیین الحقائق،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج 4،ص 57، المطبعة الكبرى الأميريہ ، القاهرہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ولو قال أبیعک ھذا بثلثمائۃ علی أن یخدمنی سنۃ کان فاسدا لأن ھذا بیع شرط فیہ الإجارۃ  مختصرا  ‘‘ترجمہ:اگر کسی نے کہامیں نے یہ (غلام) تجھے تین سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کیا کہ یہ ایک سال تک میری خدمت کرے گا ،تو یہ بیع فاسد ہے ،کیونکہ یہ ایسی بیع ہے، جس میں اجارہ کی شرط لگائی ہے ۔ (عالمگیری،کتاب البیوع، الباب العاشر، ج3،ص135، دار الفکر ، بیروت)

   (4)سود:

   اس عقدمیں سودکاعنصربھی پایاجاتاہے ،کیونکہ  اس عقدمیں شروط فاسدہ پائی جاتی ہیں  اورشروط فاسدہ سودکے حکم میں ہیں کہ عقد معاوضہ میں ایک ایگریمنٹ کرنے والے کوبغیرکسی معاوضے کے  شرط والانفع  مل رہاہے اورایسانفع سودہوتاہے۔

   تبیین الحقائق میں ہے:”حقيقة الشروط الفاسدة هي زيادة ما لا يقتضيه العقد ولا يلائمه فيكون فيه فضل خال عن العوض، وهو الربا بعينه“ترجمہ:شروط فاسدہ کی حقیقت عقد میں ایک ایسی زیادتی کی ہے، جس کا عقد تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ عقد کے مناسب ہوتی ہے، لہذا یہ عقد میں بغیر عوض کے زیادتی ہوتی ہے اور یہ بعینہ سُود ہے۔(تبیین الحقائق،کتاب البیوع،ج 4،ص 131، المطبعة الكبرى الأميريہ ، القاهرہ)

   (5)ناجائز اجارہ:

    پروڈکٹ  رینکنگ کا یہ طریقہ ناجائز اجارے پر  مشتمل ہے کہ پروڈکٹ  رینکنگ کرنے والے سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ اگر وہ  اپنے دیگر اکاؤنٹس سے بناوٹی خریداری کی صورت اپنا کر اچھے ریویوز دے، تو    اس طرح اچھی رائے دینے کے بدلے فی اکاؤنٹ کے حساب سے اتنے پیسے دیں گے، اکاؤنٹ پر رائے دینا ایک منفعت ہے،   جس کے بدلے   مال لینا  طے کیا جا رہا ہے اور مال کے بدلے اپنے منافع دینا اجارہ ہے،  مگر یہاں جس کام پر اجارہ ہو رہا ہے، وہ جھوٹ اور دھوکا پر مشتمل ہے ،اس  لیے یہ اجارہ ناجائز و حرام اور اس کے بدلے مال لینا بھی ناجائز و حرام ہے کہ  گناہ  کے کام پر اجارہ ناجائز و باطل ہے ،  یا پھریہ کہا جائے گا کہ   محض  اچھی رائے و مشورہ شرعا  قابل اجارہ ایسی  منفعت ہی نہیں کہ جس کے بدلے میں مال لینا جائز ہو،  لہذا  بہر صورت یہ باطل  طریقے سے ہی دوسروں کا مال لینا ہے، جس کی حرمت  قرآن مجید میں موجود ہے ۔

    دوسرے کامال باطل طریقے سے کھانے کی ممانعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا﴿  یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پارہ 5،سورۃ النساء ،آیت29)

   البحر الرائق میں ہے:”(ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجرة من غير أن يستحق عليه؛۔۔۔وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه۔۔۔ وفي المحيط ذمي استأجر من مسلم أو ذمي بيعة يصلي فيها لم يجز؛ لأن صلاة الذمي معصية وإن كانت طاعة في زعمه“ترجمہ:گانے نوحے اور لہو و لعب پر اجارہ جائز نہیں، کیونکہ معصیت کا عقد کے ذریعے استحقاق متصور نہیں ،لہذا بغیر استحقاق کے اجرت واجب نہیں ،اور اگر اس نے اجرت دے دی اور اجرت لینے والے نے قبضہ کر لیا، تو مالک کو لوٹانا واجب ہے ۔ محیط میں ہے کہ ذمی نے مسلمان یا ذمی سے کلیسا اجرت پر لیا  کہ اس میں عبادت کرے ،تو یہ اجارہ جائز نہیں،کیونکہ ذمی کی عبادت معصیت ہے ،اگرچہ اس کے گمان  میں اطاعت ہے۔(البحر الرائق ، جلد8،صفحہ23،بیروت)

    بہار شریعت میں ہے :’’ گناہ کے کام پر اجارہ ناجائز ہے، مثلاً: نوحہ کرنے والی کو اجرت پر رکھا کہ وہ نوحہ کرے گی جس کی  یہ مزدوری دی جائے گی ۔ گانے بجانے کے لیے اجیر کیا کہ وہ اتنی دیر تک گائے گا اور اس کو یہ اجرت دی جائے گی۔ ملاہی یعنی لہو و لعب پر اجارہ بھی ناجائز ہے ۔ گانا یا باجا سکھانے کے لیے نوکررکھتے ہیں ،یہ بھی ناجائز ہے ۔ان صورتوں میں اجرت لینا بھی حرام ہے اور لے لی   ہو، تو واپس کرے اور معلوم نہ رہا کہ کس سے اجرت لی تھی ،تو اسے صدقہ کر دے کہ خبیث مال کا یہی حکم ہے ۔‘‘(بھار شریعت ، جلد 03، حصہ14، صفحہ 144، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لیے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا :آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج19، ص452، 453، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم