Chori Ka Maal Bechne Wale Se Kharidari Karna

چوری کامال بیچنے والے سے خریداری کرنا

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-913

تاریخ اجراء:       17ذیقعدۃالحرام1443 ھ/17جون2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص  دیگر مال کے ساتھ چوری کا مال بھی بیچتا ہے تو اس سے مال خریدنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   احتیاط اسی میں ہے کہ ایسی دوکان سے خریداری نہ کی جائے اوراگرکسی چیز کے متعلق  معلوم ہے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا خریدنا حرام و گناہ ہےبلکہ اگر یقینی طور پر معلوم نہ ہو لیکن کوئی واضح قرینہ ہو جس کی بنیاد پر یہ گمان قائم ہو کہ یہ چوری کا مال ہے تب بھی خریدنا، جائز نہیں کیونکہ بیچنے والا چوری  کے مال کا مالک ہی نہیں ہوا۔

   ہاں اگر معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا قرینہ ہو تو خریدنا، جائز ہے لیکن اگر خریدنے کے بعد معلوم ہوگیا کہ یہ چوری کا ہے تو اب اس کا استعمال جائز نہیں بلکہ مالک کو واپس کیاجائے اوراگروہ نہ ہوتواس کے وارثوں کواوران کابھی پتانہ چل سکے توفقراء کودیاجائے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے " چوری کا مال دانستہ خریدناحرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے مثلا کوئی جاہل شخص کو اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں  اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کااستعمال حرام ہے بلکہ ملاک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں  کو ، اور ان کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو" (فتاوی رضویہ،ج17،ص165،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم