Cash Par Kam Aur Qiston Par Ziyada Paise Lena Kaisa ?

چیز نقد میں سستی اور قسطوں میں مہنگی بیچنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12145

تاریخ اجراء:       09 شوال المکرم1443 ھ/11مئی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پوری پیمنٹ ایک ساتھ کیش کرنے پر 100 والی چیز 90میں بیچنا، اور قسطوں میں وہی چیز 150 کی بیچنا شرعاً کیسا ؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ یاد رہے کہ ہر شخص کو اپنی چیز کم یا زیادہ ریٹ میں فروخت کرنے کا مکمل اختیار ہے، شریعت میں اس کی کوئی ممانعت نہیں، بشرطیکہ سودا باہمی رضامندی سے ہو اور اس میں کسی قسم کی کوئی خلافِ شرع بات نہ پائی جائے۔

البتہ عموماً   چیز نقد میں سستی اور ادھار میں مہنگی ہی بیچی جاتی ہےکوئی اور شرعی خرابی نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، نیز  قسطوں پر کوئی چیز فروخت کرنا  یہ بھی دراصل ادھار بیع ہی کی ایک قسم ہےجس میں قیمت یکمشت لینے کے بجائے قسطو ں میں وصول کی جاتی ہے ۔قسطوں میں بھی کوئی چیز نقد کے مقابلے میں اگر مہنگی بیچی جائے تو اس میں کوئی شرعی خرابی نہیں، جبکہ فریقین سودا حتمی طور پر طے کرتے وقت کسی ایک  قیمت پر سودا کریں اور کوئی آپشن نہ ہو کہ اتنے ماہ لیٹ ہوئے تو قیمت یہ نہیں بلکہ یہ ہوگی کہ یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

   وہ سودا جو باہمی رضامندی سے ہو، اس سے ملنے والا نفع شرعاً جائز ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾“ترجمہ کنزالایمان:”اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔(القرآن الکریم ، پارہ05 ، سورۃ النساء،آیت:29)

   نقد میں سستا بیچنا جبکہ ادھارمہنگا  بیچنے کے متعلق فتح القدیر میں ہے: ” ان كون الثمن على تقدير النقد ألفا وعلى تقدير النسيئة ألفين ليس في معنى الربا “ یعنی کسی چیز کی قیمت نقد کی صورت میں ایک ہزار اور ادھار کی صورت میں دو ہزار ہو ، تو یہ سود کی صورت نہیں ہے۔( فتح القدیر ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، ج 6 0، ص410 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   فتاوی امجدیہ میں ہے:” ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کم یا زیادہ، جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے زیادہ شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔“(فتاویٰ امجدیہ، ج03، ص 181، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   قسطیں مقرر کرنا ، ادھار بیع ہی کی ایک قسم ہے  اور جائز ہے۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے:”التاجیل جائز کما حققنا کل ذلک وما التنجیم الا نوع من التاجیل“یعنی(بیع میں)مدت مقرر کرنا جائز ہے جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوی میں اس کی تحقیق کی اور قسطیں مقرر کرنا بھی مدت مقرر کرنے ہی کی ایک قسم ہے۔(فتاوی رضویہ ، ج 17، ص 493،  رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

   فتاویٰ فیض رسول میں ہے:”کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقد قیمت فوراً ادا کردے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے۔ یہ شریعت میں جائز ہے سود نہیں ہے نقد اور ادھار کا الگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے مگر یہ ضروری ہے کہ سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کردے کہ اس سامان کی قیمت نقد خریدو تو اتنی ہے اور ادھار خریدو تو اتنی ہے۔“(فتاویٰ فیض رسول،  ج 01، صفحہ 381، شبیر برادرز، لاہور)

   مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ نقد و ادھار کی قیمتوں میں فرق کرنا جائز ہے۔ اور اس طرح بیع کرنا کہ یہ چیز نقد دس روپے کی ہے اور ادھار پندرہ روپے کی یہ جائز ہے۔  لہذا صورتِ مسئولہ میں قسطوں پر سامان  لینا جائز ہے اور قسطوں کی صورت میں جو زیادہ پیسہ دیا جاتا ہے، یہ سود نہیں ہے۔“ (وقار الفتاویٰ، ج 03، ص 270، بزم وقار الدین، ملخصاً)

   نوٹ: یہاں یہ  ضرور یاد رہے کہ قسطوں کا کاروبار فی نفسہ تو جائز ہے لیکن اگر اس کاروبار میں کوئی ناجائز شرط لگادی  جائے (مثلاً وقت پر قسط ادا نہ کرنے پر جرمانے کی شرط لگانا وغیرہ)  تواس ناجائز شرط کی وجہ سے وہ سودا ناجائز ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مروجہ قسطوں کے  کاروبار میں کئی شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن سے بچنا ہر مسلمان پر شرعاً لازم و ضروری ہے۔قسطوں پر جس بھی ڈیلر یا دکان دار سے سودا کرنے لگیں تو اس کے معاہدے کو معتمد سنی علمائے کرام پر پیش کر کے اس بارے میں شرعی رہنمائی ضروری لینی چاہیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم