Brokers Ka Demand Se Zyada Rate Lena Aur Khud Rakhna

بروکر مالک کی ڈیمانڈ سے زائد ریٹ پر چیز بیچ دے تو اضافہ خود رکھنے کی شرعی حیثیت

مجیب:مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3227

تاریخ اجراء:27ربیع الثانی1446ھ/31اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ ایک شخص کاگاڑیوں کا کاروبار ہے، خریدتا اور بیچتا ہے،کسی نے اس کو گاڑی بیچنے کے لیے دی،تو اس نے اس سے پوچھا آپ کم ازکم کتنے میں بیچنا چاہیں گے؟تو اس نے مثال کےطور پر کہا کہ میں نے پچیس لاکھ میں بیچنی ہے، اس  سے کم میں نہیں بیچنی،  اب اس کاروبار کرنے والے  کواس سے زیادہ قیمت کا گاہک ملتا ہے اور یہ اس میں منافع لینا چاہتا ہےتو کیا اگر اس نے ایسا کیا کہ آگےکسی کے ساتھ تیس لاکھ میں سودا کرلیا  پھر جن کی گاڑی تھی ان سے بھی پوچھاکہ آپ پچیس لاکھ میں دینا چاہتے ہیں تو اس نے کہا کہ ہاں میں دینے کے لیے راضی ہوں، تو اوپر کا جو منافع ہے، اس بیچ والے سیلز مین کے لیے لینا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں چیز اگرچہ  بروکر کی محنت و کوشش سے،مالک کی ڈیمانڈ سے زائد قیمت پر سیل ہوئی لیکن ڈیمانڈ سے زائد  رقم  بروکر کے لیے لینا جائز نہیں بلکہ مالک کو دینا ضروری ہے۔بروکر صرف   اپنی بروکری ہی لے سکتاہے اوراس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے کام کی بروکری کاجتناوہاں عرف ہے،اس سے زائدنہ ہو۔ہاں اگر چیز بکنے کے بعد  مالک اجرت کے علاوہ کچھ رقم بروکر کو بطور انعام   دینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

   چنانچہ درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”لو أعطى أحد مالا للدلال، وقال بعه اليوم بكذا قرشا فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفضل أيضا لصاحب المال؛لأن هذا الفضل بدل مال ذلك الشخص، فكما أن ذلك المبدل كان ماله فالبدل يلزم أن يكون كذلك،وليس للدلال سوى أجرة الدلالة ۔۔۔وحكم هذا الدلال كالأجير المشترك“ ترجمہ: اگر کسی نے بروکر کو مال دیا اور کہا آج کے دن میں اتنے قرش کے بدلے بیچ دو، اگر بروکر نے اس سے زیادہ میں بیچ دیا تو اضافی رقم بھی مال کے مالک کی ہے کیونکہ یہ اضافہ اس شخص کے مال کا بدل ہے، جیسے مبدل اس کا مال تھا ، بدل بھی اسی کا مال ہوگا اور بروکر کو صرف اس کی بروکری کی  اجرت ملے گی۔۔۔ اس دلال کا حکم اجیر مشترک کی طرح ہے۔(درر الحکام  فی شرح مجلۃ الاحکام،ج01، المادة:578، ص 662،دار الجيل)

   فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کمیشن لینے کے متعلق سوال ہواکہ زید کے کارندہ نے عمرو سے وعدہ کیا کہ جائداد آپ کی زید سے بکوادوں گا مگر مجھے محنتانہ دیجئے گا، اس نے اقرار کیا، اور زید کو بھی اس کا حال معلوم ہے، کارندہ مذکور نے اس کی بیع میں بہت کوشش کی، چنانچہ بیع تمام ہوگئی، اور مشتری کو دھوکا بھی کچھ نہ دیا، یہ اُجرت جائز ہے یا ناجائز ہے؟

   توآپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:”اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی بائع کے لئے کوئی دوادوش  نہ کی، اگر چہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اُجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے، دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے مشورہ دینے کی،۔۔۔اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا۔“(فتاوی رضویہ، ج19،ص،453،452،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم