Boli ke zariye khareed o farokht ka Hukum Aur jis Shakhs Ka Khareedne Ka Irada Na Ho Iske Boli Mein Shamil Hone Ka Hukum?

بولی کے ذریعے خرید و فروخت کا حکم اور جس شخص کا خریدنے کا ارادہ نہ ہو ، اس کے بولی میں شامل ہونے کا حکم؟

مجیب:مولانا شفیق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs 1497

تاریخ اجراء:29ربیع الآخر1440ھ/06جنوری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارےمیں کہ بولی کی خریدوفروخت کرنا کیسا ہے ؟نیز بسااوقات بولی لگانے والے کاخود خریدنے کا ارادہ نہیں ہوتا اور وہ صرف ریٹ بڑھا کر دوسروں کو پھنسانے کے لیے بولی میں شامل رہتا ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

سائل:حسن رضا(صدرمارکیٹ ،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    حقیقی طور پر بولی لگا کر چیزوں کی خریدوفروخت بالکل جائز اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،البتہ یہ بات  ضروری ہے کہ کسی طرح کے دھوکے اور جھوٹ سے کام نہ لیا جائے  لیکن یہ طریقہ کہ جس کا خریدنے  کا ارادہ نہ ہو ،وہ اس لیے بولی لگائے تاکہ چیز کی قیمت مزید بڑھ جائے اور دوسرا شخص یعنی اصل خریدار،یہ بولی سن کر مزید اوپر کی قیمت لگائے گا ،تو ایسے شخص کا بولی میں شامل ہونا دھوکہ اور ناجائز و گناہ ہے۔  عموماً مارکیٹ میں ایسے لوگ دکاندار وں نے رکھے ہوتے ہیں تاکہ وہ دوسروں کو پھنساتے رہیں  ، یہ جائز نہیں   ،حدیث پاک میں ایسی بولی سے منع کیا گیا ہے ۔

    بولی کے ثبوت سے متعلق حدیث پا ک میں ہے :’’عن انس ابن مالک ان رسول الله صلى الله عليه وسلم باع حلسا وقدحا وقال: من يشتري هذا الحلس والقدح، فقال رجل: اخذتهما بدرهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من يزيد على درهم؟ من يزيد على درهم؟ فاعطاه رجل درهمين: فباعهما منه‘‘ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حلس (اونٹ کے کجاوے کے نیچے رکھنے والا کپڑا)اور پیالہ بیچنے سے پہلے ارشاد فرمایا: کون اس کپڑےاور پیالے کو مجھ سےخریدے گا؟تو ایک شخص نے عرض کی کہ میں ان دونوں کو ایک درھم کے بدلے میں خریدوں گا ،تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ فرمایا:ایک درھم سے زیادہ میں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے دو درہم پیش کیے تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ دونوں چیزیں بیچ دیں ۔

(جامع ترمذی،کتاب البیوع،باب ما جاء فی بیع من یزید،ج1،ص231،مطبوعہ کراچی)

    اور جس کا ارادہ خرید نے کا نہ ہو اسے بولی میں شامل ہونے منع فرمایا ۔ جیساکہ بخاری شریف میں ہے:’’نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن النجش ‘‘ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں نجش (جھوٹی بولی لگانے)سے منع فرمایا۔

(صحیح بخاری،ج1،ص287،مطبوعہ کراچی)

    ہدایہ میں ہے:’’نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النجش :وھو ان یزید فی الثمن ولایرید الشراء لیرغب غیرہ قال علیہ السلام ’’ولا تناجشوا‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش سے منع فرمایا اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص ثمن میں اضافہ كروادےاوراس کا  خریدنے کا ارادہ نہ ہو، تاکہ دوسراشخص اس پر رغبت رکھے ،نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا :نجش نہ کرو ۔

(الهدایہ جلد3،صفحہ 59،مطبوعہ بیروت)

صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :” نجش مکروہ ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےاس سے منع فرمایا ۔ نجش یہ ہے کہ مبیع کی قیمت بڑھائے اورخود خریدنے کاارادہ نہ رکھتا ہو ۔ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ دوسرےگاہک کو رغبت پیدا ہواور قیمت سے زیادہ دے کر،خریدلے اور یہ حقیقۃً خریدار کو دھوکا دینا ہے،جیسا کہ بعض دُکاندار کے یہاں اس قسم کے آدمی لگے رہتے ہیں ۔ گاہک کو دیکھ کر چیز کے خریدار بن کر دام بڑاھا دیا کرتے ہیں اور ان کی اس حرکت سے گاہک دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ گاہک کے سامنے مبیع کی تعریف کرنا اور اُس کے ایسے اوصاف بیان کرنا،جونہ ہوں تاکہ خریدار دھوکا کھاجائے،یہ بھی نجش ہے ۔“

(بھارِ شریعت ، حصہ 11 ، جلد 2 ، صفحہ 723 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم