مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-1542
تاریخ اجراء: 12رمضان المبارک1444 ھ/03اپریل2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی چیز
کا بیعانہ مثلا پانچ لاکھ دیا ہوا تھاپھر دوسری پارٹی
سودا کینسل کر دیتی ہے
تو اس پر اضافی رقم جرمانہ کے طورپر لے سکتےہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورت ِمسئولہ میں جب شرعاعقد مکمل
وفائنل ہوگیاتواب بلاوجہ شرعی کوئی ایک تنہا اپنی
مرضی سے اسےختم نہیں کرسکتالہذاایسی صورت میں
اگرپارٹی سوداکینسل کرے تودوسرے فریق کویہ اختیارہےکہ
اس کاکینسل کرنانہ مانے اورعقدکومکمل ولازم جانے لیکن اگرپارٹی
کےعقد ختم کرنے کومان کریہ چاہے کہ اس
ختم کرنے کے جرمانے میں اس سے اضافی رقم لے تویہ
شرعاجائزنہیں ہے بلکہ سودا ختم
ہونے کی صورت میں جو بیعانہ دیا تھا فقط وہی واپس لے سکتے
ہیں، کیونکہ جرمانہ تعزیر بالمال ہے اور تعزیربالمال
منسوخ ہے اورمنسوخ پرعمل کرنا،ناجائزوحرام ہے۔
جرمانے کے ناجائزہونے کی ایک
وجہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں جومال لیاجاتاہے وہ مال
والے کی رضامندی سے نہیں ہوتااوردوسرے کی رضامندی
کے بغیراس کامال لینے کو ناجائز قراردیا گیاہے کہ یہ
باطل طریقے سے مال کھانا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے (وَلَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ
بِالْبَاطِلِ َ)ترجمہ
کنزالایمان :اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔(سورۃ البقرۃ ،پ2،آیت188)
سنن الدارقطنی میں ہے''لایحل مال امرء مسلم الاعن طیب
نفس''ترجمہ:کسی
مسلمان کامال بغیراس کی رضا کے لیناحلال نہیں ہے۔(سنن الدارقطنی،ج3،ص424،مؤسسۃ الرسالۃ،
بیروت)
ردالمحتار میں ہے “ لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر
سبب شرعی ”ترجمہ:
کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب
شرعی کے کسی کا مال لے۔(ردالمحتار، کتاب الحدود باب التعزیر،ج3،ص178، داراحیاء التراث
العربی، بیروت )
شرح نسائی شریف میں امام
جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کافرمان ہے:'' کان فی صدر الإسلام تقع العقوبات فی
الأموال ثم نسخ۔''ترجمہ:
شروع اسلام میں مالی سزائیں دی جاتی تھیں پھر
یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (شرح
نسائی،کتاب الزکوٰۃ، عقوبۃ مانع الزکوٰۃ،ج5،ص16،مکتب
المطبوعات الإسلامیۃ،حلب)
فتاوی شامی میں ہے''وفی شرح الآثارلامام الطحاوی
رحمہ اللہ تعالیٰ التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام
ثم نسخ''
ترجمہ: امام طحاوی علیہ الرحمۃ کی شرح الآثارمیں ہے
تعزیربالمال اسلام کے ابتداء میں مشروع تھا پھرمنسوخ کردیا گیا
۔(ردالمحتار، کتاب الحدود باب التعزیر،ج3،ص178،
داراحیاء التراث العربی، بیروت )
اور منسوخ پر عمل کے حرام ہونے کے متعلق
المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے''والعمل بالمنسوخ باطل غیر جائز''ترجمہ: اور منسوخ
پر عمل کرنا باطل ہے جائزنہیں ہے ۔ (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی ،کتاب القضاء
،ج8،ص71،دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
سیدی
اعلیٰ حضرت مجدددین وملت فتاوی رضویہ شریف میں
ارشاد فرماتے ہیں:''جرم کی تعزیر مالی جائز نہیں کہ
منسوخ ہے او ر منسوخ پر عمل حرام ہے۔ ''(فتاوی رضویہ ،ج19،ص506،رضافاؤنڈیشن،لاہور(
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟