Advance Security Ki Shart Aur Dairy Association Ke Muqarrar Karda Rates Par Doodh Ki Khareed o Farokht Ka Hukum?

ایڈوانس سیکورٹی کی شرط  اورملک  ایسوسی ایشن کے مقرر کر دہ ریٹس پر دودھ کی خریدو فروخت    کا حکم ؟

مجیب:ابو سعید محمد نوید رضا عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-5118

تاریخ اجراء:23رجب المرجب 1444ھ/15فروری 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

   (1)دودھ فروش  دکانداراور دودھ سپلائی کرنے والوں  کے درمیان ایک سال کا  معاہدہ ہوتا ہے، اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ  دودھ فروش  دکاندار ،سپلائر کو ایک مخصوص رقم مثلاً: ایک لاکھ روپے ایڈوانس سیکورٹی کے طور پر جمع کرواتا ہے اور سپلائر معاہدے کے مطابق روزانہ ایک سال تک دودھ فروش کو دودھ سپلائی کرتا ہے۔ دودھ کی رقم دودھ فروش  روزانہ یا ہفتہ وار معاہدے میں جو طے ہوا، اس کے مطابق سپلائر کو دیتا رہتا ہے ،  پھر سال مکمل ہونے پر معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور سپلائر سیکورٹی کی رقم دودھ فروش کو واپس کر دیتا ہے۔اگر مزید معاہدہ جاری رکھنا چاہیں تو سیکورٹی کی اسی رقم پر یا کم یا زیادہ پر پھر اگلے سال کا معاہدہ ہو جاتا ہے۔

   ایڈوانس سیکورٹی کی  رقم  کی شرط کے  ساتھ یوں دودھ خریدنا جائز ہے یا نہیں ؟

   (2)سپلائر اور دکاندارکے درمیان دودھ کا ریٹ وہی مقرر ہوتا ہے، جو ملک ایسوسی ایشن کا مقرر کردہ ہوتا ہے اور یہ ریٹ فریقین کو معلوم ہوتا ہے، جب اس ریٹ میں تبدیلی ہوتی ہے،تو سپلائر دکاندار کو  اس کی اطلاع دیتا ہے ۔ اطلاع کے بعد سے آنے والا دودھ نئے ریٹ پر ہوتا ہے۔ملک ایسوسی ایشن کے مقرر کر دہ ریٹس پر دودھ کی خریدو فروخت کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)فی زمانہ دودھ فروش دکاندار اور سپلائر کے درمیان دودھ کی خریدو فروخت کے معاہدے میں ایڈوانس سیکورٹی کے طور پر مخصوص رقم جمع کروانے پر عرف و تعامل جاری ہے ۔عرف جاری ہونے کی وجہ سے یہ شرط مفسد عقد نہیں ہو گی اور اس شرط کے ساتھ دودھ کی خریداری جائز ہو گی۔

   اس کی تفصیل یہ ہے :کسی بھی چیز کی  خریداری پر رقم بطور ایڈوانس سیکورٹی جمع کرانا شرط فاسد ہے کہ  ایڈوانس سیکورٹی کی رقم پر قرض کا حکم ہوتا ہے اور بیع میں قرض کی  شرط مقتضی عقدکےخلاف ہے اور اس میں بائع کا فائدہ ہے۔ہر وہ شرط جس کا عقد تقاضا نہ کرتا ہو اور عاقدین میں سے کسی ایک کا  یا قابل استحقاق مبیع کا اس میں فائدہ ہو، تو وہ مفسد عقد ہوتی ہے، لیکن جب اس پر عرف جاری ہو ،تو مفسدِ عقد نہیں رہتی اور فی زمانہ  دودھ فروش دکاندار اور سپلائر کے درمیان ایڈوانس سیکورٹی کی  شرط متعارف ہے اور  اس کے بغیر دودھ کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے،تقریباً تمام دکاندار اسی شرط کے ساتھ دودھ خریدتے ہیں اور سپلائر اسی شرط کے ساتھ دودھ بیچتے ہیں۔لہذا شرط متعارف ہونے کی وجہ عقد فاسد نہیں ہو گا اور دودھ کی بیع و شراء جائز ہو گی ۔چنانچہ ہدایہ میں ہے  : ’’کل شرط لایقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لاحد المتعاقدین اوللمعقود علیہ وھو من اھل الاستحقاق یفسدہ الا ان یکون متعارفالان العرف قاض علی القیاس ،ملتقطا‘‘ہر وہ شرط جس کا عقد تقاضا نہ کرتا ہو اور اس میں عاقدین میں سےکسی ایک یا مبیع اگر وہ فائدہ کی اہل ہے ، کا فائدہ ہو، تو وہ بیع کو فاسد کردے گی،بشرطیکہ عرف میں وہ شرط معروف نہ ہو،کیونکہ  عرف  قیاس پر فیصل ہوتاہے۔(ھدایہ، ج3،ص61،مطبوعہ لاھور )

   یونہی در مختار میں ہے :’’الاصل الجامع فی فساد العقد بسبب شرط (لایقتضیہ العقد ولایلائمہ اوفیہ نفع لاحدھما او لمبیع من اھل الاستحقاق ولم یجر  العرف بہ ولم یرد الشرع بجوازہ) امالو جری العرف بہ کبیع نعل مع شرط تشریکہ او وردالشرع بہ کخیار شرط ،فلا فساد ‘‘ کسی شرط کے سبب عقد کے فاسد ہونے کا جامع اصول یہ ہے کہ اس شرط کو  نہ توعقد قبول کرے اورنہ ہی وہ عقد کے مناسب ہو اور اس شرط میں فریقین یا  مبیع اگر وہ نفع کی مستحق ہے  ، کا فائدہ ہو  بشرطیکہ اس شرط پر عرف قائم نہ ہو اور نہ ہی شریعت نے اس کے جواز کو بیان کیا ہو،بہرحال  اگر عرف میں اس کا جواز مروج ہو ،جیسے پیشگی آرڈر پر جو تاسلوانا یا اس شرط کے جواز پر شریعت وارد ہو،جیسا کہ شرط خیار، تو ( بیع ) فاسد نہیں ہوگی ۔(در مختار، ج7،ص283،284،مطبوعہ کوئٹہ )

   ردالمحتار میں ہے:’’ قولہ:(مثال لما فیہ نفع البائع ) و منہ ما لو شرط البائع ان یھبہ المشتری شیئاً  او یقرضہ او یسکن الدار شھراً ۔۔۔ الخ‘‘(اس کی مثال جس میں بائع کا نفع ہو)اور اسی میں سے یہ بھی ہے کہ  بائع اگر یہ شرط رکھے کہ مشتری اسے کوئی چیز ہبہ کرے یا اسے قرض دے یا وہ ایک ماہ اس کے گھر میں رہے گا۔ (ردالمحتارمع الدرالمختار،ج7،ص285،مطبوعہ کوئٹہ)

   جس شرط سے بیع فاسد ہوتی ہے، اس پر عُرف نہ ہونا شرط ہے ۔ جیساکہ امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’اور بیع میں شرط افساد  با شرط عدمِ تعارفِ شرط ہے ۔(فتاویٰ رضویہ، ج19،ص578،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   لہذا عرف و تعامل کی وجہ  تخفیف و تیسیر پر بنیاد رکھتے ہوئے  ایڈوانس کی شرط کے ساتھ دودھ کی خریداری کو جائز قرار دیا جائے گا اور اس شرط سے بیع فاسد نہیں ہو گی۔ علامہ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’لا بد  من معرفۃ عادات الناس فکثیر من الاحکام تختلف باختلاف الزمان لتغیر عرف اھلہ او لحدوث ضرورۃ او فساد اھل الزمان بحیث لو بقی الحکم علی ما کان علیہ او لا للزم منہ المشقۃ و الضرر  بالناس و لخالف قواعد الشریعۃ المبنیۃ علی التخفیف و التیسیر  و دفع الضرر و الفساد لبقاء العالم علی اثم نظام و احسن احکام و لھذا تری مشائخ المذھب خالفوا ما نص علیہ المجتھد فی مواضع کثیرۃ بناھا علی ما کان فی زمنہ لعلمھم بانہ لو کان فی زمنھم لقال بما قالوا بہ اخذاً من قواعد مذھبہ‘‘لوگوں کی عادتوں  کی پہچان ضروری ہے کہ بہت سے احکام ،زمانہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں کہ اہل زمانہ کا عرف تبدیل ہونے یا کسی  ضرورت کے  پیدا ہونے یا اہل زمانہ کے فساد کی وجہ سے ایسی صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ اگر وہ پہلا حکم باقی رہے، تو اس سے لوگوں پر ضرر اور مشقت لازم ہوگااور یہ ان  شرعی قوانین کے مخالف ہے کہ  جن کی بنیاد تخفیف و تیسیر یعنی آسانی دینے  اور ضرر و فساد،دور کرنے پر ہے تاکہ دنیا ، اتم  نظام اور احسن احکام پر باقی رہے۔ اسی وجہ سے تم مذہب کے مشائخ  کو دیکھو گے کہ وہ کثیر مقامات پر اپنے زمانے کے عرف کی بنا پر  مجتہد سے منصوص مسئلہ کے خلاف کرتے ہیں ،کیونکہ مجتہد کے مذہب کے قوانین سے اخذ کرتے ہوئے یہ حضرات  جانتے ہیں کہ اگر ان کے زمانے میں وہ مجتہد ہوتے تو یہی فرماتے جو انہوں نے فرمایا۔(رسائل ابن عابدین،ج2،ص125،مطبوعہ سھیل اکیڈمی)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’ و من لم یعرف اھل زمانہ و لم یراع فی الفتیا حال مکانہ فھو جاھل مبطل فی قولہ و بیانہ‘‘ اور جو اہل زمانہ کا عرف نہیں جانتا  اور فتوی دینے میں اس کے حال کی رعایت نہیں کرتا ،وہ جاہل اور ان کے قول و بیان کو باطل کرنے والا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج25،ص339،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   نشر العرف میں ہے:’’لیس للمفتی و لا للقاضی ان یحکما بظاھر الروایۃ و یترکا العرف ‘‘مفتی اور قاضی کے لیے جائز نہیں کہ ظاہر الروایہ کے مطابق حکم دیں اور عرف کو چھوڑ دیں۔(رسائل ابن عابدین،ج2،ص133،مطبوعہ سھیل اکیڈمی)

   اشکال : حدیث پاک میں ہے:’’نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن بیع و شرط‘‘ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع اور شرط سے منع فرمایا ۔

   یہ حدیث پاک بیع میں شرط لگانے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے ،لہذا ایڈوانس کی شرط کے  ساتھ دودھ  کی  بیع  اس حدیث پاک کے خلاف ہے ۔نص کے خلاف عرف معتبر نہیں ہوتا ،جیساکہ اس  کے بارے میں نشرف العرف میں ہے:’’و لا اعتبار للعرف المخالف للنص لان العرف قد یکون علی باطل بخلاف النص کما قالہ ابن الھمام‘‘ نص(یعنی قرآن و حدیث ) کے مخالف عرف کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس لیے کہ کبھی عرف خلاف نص باطل پر بھی ہو جاتا ہے۔(رسائل ابن عابدین،ج2،ص115،مطبوعہ سھیل اکیڈمی)

   جواب : ایڈوانس سیکورٹی کی شرط کے ساتھ دودھ کی خریداری پر عرف کی وجہ سے جواز کا حکم حدیث پاک کے خلاف نہیں کہ حدیث پاک میں بیع کے ساتھ شرط کی ممانعت کا حکم جھگڑے اور نزاع کی علت سے معلول ہے یعنی بیع میں  وہ شرط ممنوع ہے، جو جھگڑے کی طرف لے کر جانے والی ہے اور وہ شرط ممنوع نہیں جو جھگڑے کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ جب دودھ کی بیع میں ایڈوانس سیکورٹی کی شرط پر عرف ہو گیا، تو یہ  عرف بھی  جھگڑے اور نزاع کو دور کرتا ہے، یوں یہ عرف حقیقت میں حدیث پاک کے موافق ہے، نہ کہ مخالف کہ دونوں کا مقصود ایک ہی ہے ۔

   چنانچہ علامہ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالی ردالمحتار  میں فرماتے ہیں:’’قال فی المنح : فان قلت : نھی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن بیع و شرط فیلزم ان یکون العرف قاضیاً علی الحدیث ۔

   قلت : لیس بقاض علیہ، بل علی القیاس ، لان الحدیث معلول بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود بہ و ھو قطع المنازعۃ ، و العرف ینفی النزاع فکان موافقاً لمعنی الحدیث ، فلم یبق من الموانع الا القیاس و العرف قاض علیہ اھ ملخصاً ۔

   قلت : تدل عبارۃ البزازیۃ و الخانیۃ ، و کذا مسألۃ القبقاب علی اعتبار العرف الحادث و مقتضی ھذا انہ لو حدث عرف فی شرط غیر الشرط فی النعل و الثوب و القبقاب ان یکون معتبراً  اذا لم یؤد الی المنازعۃ ، و انظر ما حررناہ فی رسالتنا المسماۃ: نشر العرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف  ‘‘منح میں فرمایا  :  اگر تو کہے : نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع اور شرط سے منع فرمایا، تو لازم آئے گا کہ عرف حدیث پر قاضی ہے ۔

   میں  کہتا ہوں : عرف حدیث پر نہیں، بلکہ قیاس پر قاضی ہے  ، کیونکہ حدیث کا حکم اس علت کے ساتھ  ہے کہ ایسا جھگڑا جو عقد کے مقصود کے خلاف ہو  یعنی جھگڑے سے بچنا علت ہے ، اور عرف بھی جھگڑے کی نفی کر رہا ہے، تو یہ حدیث کے معنیٰ کے موافق ہوا ، لہذا موانع میں سے کوئی باقی نہ رہا علاوہ قیاس کے اور اس پر عرف قاضی ہے ۔

   میں کہتا ہوں : بزازیہ اور خانیہ کی عبارت اور یونہی کھڑاؤں والا مسئلہ نئے عرف کے معتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے ، اور اس کا مقتضی یہ ہے کہ اگر  جوتے ، کپڑے اور کھڑاؤں میں موجود شرط کے علاوہ کسی اور شرط  پر نیا عرف  ہوجائے ، تو وہ معتبر ہوگا ،جبکہ جھگڑے کی طرف نہ لے جائے ، اور تو ملاحظہ کر اس کو جو ہم نے اپنے رسالے ’’نشر العرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف ‘‘میں تحریر کیا ہے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار ،ج7،ص288،مطبوعہ کوئٹہ)

   (2): خریدوفروخت میں چیز کی قیمت کا معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے اور یہاں خریدوفروخت  میں فریقین کو  پہلے سے ہی ملک  ایسوسی ایشن کی طرف سے مقرر کردہ ریٹ معلوم ہوتا ہے،لہذا  اس کے مطابق دودھ کی خریدو فروخت کرنا ،جائز و درست ہے۔ چنانچہ درمختار میں ہے:’’ و البیع بما باع فلاں و البائع یعلم و المشتری لا یعلم و البیع بمثل ما یبیع الناس بہ اوبمثل اخذ بہ فلان ان علم فی المجلس صح، و الا بطل‘‘اتنے کے بدلے بیع ہوئی جتنے میں فلاں نے بیچا اور بائع کو اس کا علم ہے ،لیکن مشتری نہیں جانتا ، یونہی اس طرح بیع کرنا کہ اتنے میں بیچا جتنے میں لوگ اس کو بیچتے ہیں یا جتنے میں اس کو فلاں نے لیا ہے ، تو اگر مجلس میں اس کے بارے میں معلوم ہوجائے، تو بیع صحیح ہوگی ،ورنہ بیع باطل ہوگی ۔(درمختار مع ردالمحتار،ج7،ص319،مطبوعہ کوئٹہ )

   عالمگیری میں ہے:’’و اذا اشتری شیئاً  برقمہ و لم یعلم المشتری رقمہ فالعقد فاسد فان علم بعد ذلک ان علم فی المجلس جاز العقد و کان الشیخ الامام الاجل شمس الائمہ الحلوانی رحمہ اللہ تعالی یقول و ان علم بالرقم فی المجلس لا ینقلب جائزاً  و لکن ان کان البائع دائماً علی ذلک الرضا و رضی بہ المشتری ینعقد بینھما عقد ابتداء بالتراضی کذا فی الذخیرۃ  و ان تفرقاقبل العلم بطل و کذا لو باع بما باع فلاں و البائع یعلم و المشتری لا یعلم ان علم المشتری فی المجلس صح و الا بطل کذا فی الخلاصۃ ‘‘اور جب کسی چیز کو اس کی قیمت کے بدلے خریدا اور مشتری کو اس کی قیمت معلوم نہیں، تو عقد فاسد ہوگا ، لہذا اگر اس کے بعد مجلس  کے اندر اس کے بار ے میں معلوم ہوجائے ،تو عقد جائز ہوگا ، اور امام شمس الائمہ حلوانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر رقم کا مجلس میں علم  ہوجائے، تو بھی یہ عقد جواز کی طرف نہیں پھرے گا، لیکن اگر بائع اس پر  پہلے ہی  راضی تھا اور مشتری بھی اس پر راضی ہے ،تو ان دونوں کے درمیان کیا گیا پہلا عقدباہمی رضامندی کے سبب منعقد ہوجائے گا، یونہی ذخیرہ  میں ہے اور معلوم ہونے سے پہلے دونوں جدا ہوگئے، تو عقد باطل ہوجائے گا ، یونہی اگر اس طرح بیع کی  کہ اتنے میں بیچا جتنے میں فلاں نے بیچا اور بائع کو اس کا علم ہے، لیکن مشتری نہیں جانتا،تو اگر  مجلس میں مشتری کو اس کے بارے میں معلوم ہوجائے، تو  بیع صحیح ہوگی، ورنہ بیع باطل ہوگی ۔ یونہی خلاصہ میں ہے ۔(ھندیہ،ج3،ص127،مطبوعہ کوئٹہ)

   یاد رہے ! اگر عاقدین کے مابین معاہدے میں یہ شرط رکھی جائے کہ اس ایڈوانس رقم کی وجہ سے  سپلائر ایک مخصوص ریٹ پر  ہی دودھ دینے کا پابند ہوگا ،  تویہ  ناجائز وحرام  ہے کہ ایڈوانس رقم  قرض کے حکم  میں ہے اور بائع کو ایک ریٹ کا پابند کرنا  ایک منفعت ہے ، جو اس قرض کی وجہ سے حاصل ہو رہی  ہے اور قرض کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مشروط منفعت حاصل کرنا سود ہے ، سود کا لین دین اور اس کا معاہدہ کرنا ،ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔ سود کی حرمت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواترجمہ کنز الایمان:’’وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے،مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیاسود۔‘‘)پارہ3،سورۃالبقرہ،آیت275(

   صحیح مسلم  میں ہے:’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آکل الربو و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال:ھم سواء‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےسود کھانے والے،کھلانے والے ،اس کی کتابت کرنے والےاور اس پر گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایایہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں ۔(الصحیح لمسلم،جلد2،صفحہ27،مطبوعہ کراچی(

   قرض کے ذریعے  منفعت کےحصول کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا‘‘ ہر قرض جو نفع کھینچے وہ سود ہے۔(کنزالعمال،ج6،ص99،مطبوعہ لاھور )

   محیط برہانی میں ہے:’’قال محمد رحمہ اللہ تعالی فی کتاب الصرف : ان ابا حنفیۃ رضی اللہ تعالی عنہ کا ن یکرہ کل قرض جر منفعۃ ، قال الکرخی : ھذا اذا کانت المنفعۃ مشروطۃ فی العقد ، بان اقرض غلۃ لیرد غلتہ صحاحاً او ما اشبہ ذلک‘‘امام محمد علیہ الرحمۃ کتاب الصرف میں فرماتے ہیں:امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہر اس قرض کو جو نفع لائے ،مکروہ قرار دیتے تھے۔ امام کرخی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: یہ اس وقت ہے جب منفعت عقد میں مشروط ہو اس طرح کہ  وہ غلہ اس شرط پر قرض دے کہ لینے والا اسے صحیح غلہ لوٹائے یا جو اس کے مشابہ ہو۔(محیط برھانی،ج10،ص351،مطبوعہ ادارۃ القرآن)

   علامہ ابو الحسن علی بن الحسین  السغدی رحمۃ اللہ علیہ قرض سے نفع اٹھانے کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: "والاٰخر ان یجر الی نفسہ منفعۃ بذلک القرض او تجر الیہ وھو ان یبیعہ المستقرض شیئابارخص مما یباع او یؤجرہ او یھبہ ھبۃ او یضیفہ او یتصدق علیہ بصدقۃ او یعمل لہ عملا یعینہ علی امورہ او یعیرہ عاریۃ او یشتری منہ شیئا باغلی مما یشتری او  یستاجر اجارۃ باکثر مما یستاجر ونحوھا ولو لم یکن ذلک (ھذا)القرض لما کان (ذلک )الفعل فان ذلک ربا ‘‘ اور (قرض دے کر اس پرنفع حاصل کرنے کی )دوسری صورت یہ ہے کہ قرض دینے والااس قرض کی وجہ سے خودکوئی منفعت حاصل کرے یا اسے کوئی منفعت دی جائےاور وہ اس طرح کہ قرض لینے والا قرض دینے والے کو کوئی چیز اُس قیمت سے کم قیمت پر بیچےگا،جتنے کی وہ (عام طورپر)بیچی جاتی ہےیا اسے کوئی چیز(کم اجرت کے بدلےمیں) کرائے پر دے گایا کوئی چیز تحفۃً دے گایا اس کی مہمان نوازی کرے گایا اس پر کوئی چیز صدقہ کرےگا یا اس کے لیے کوئی ایسا کام کرے گا،جو اس کے معاملات میں معاون ثابت ہو یا اسے کوئی چیز عاریۃً دےگا یا اس سےکوئی چیز اس قیمت سے کم قیمت پرخریدے گا، جتنے کی (عام طور) پر خریدی جاتی ہےیا اسے اس تنخواہ سے زیادہ پر ملازم رکھے گا جتنے پر عام طور پر ملازم رکھا جاتا ہے اور اس جیسی دیگر مثالیں،حالانکہ اگر اس قرض کا لین دین نہ ہوتا،تو اس طرح کا معاملہ نہ ہوتا،پس بیشک یہ تمام صورتیں سود کی ہیں۔(النتف فی الفتاوی للسغدی ،ص296،مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم