Achi Quality Walay Chawal, Normal Quality Walay Chawal Ke Badle Bechna

اچھی کوالٹی والے چاول ، نارمل کوالٹی والے چاولوں کے بدلے بیچنا

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7067

تاریخ اجراء:17 ربیع الاول 1444ھ14/اکتوبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے  کے بارے میں کہ چاول کی فصل اُگانے کے لیے اچھی کوالٹی کا بیج استعمال کیا جاتا ہے۔کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ زمیندار کے پاس نارمل  چاول تو ہوتے ہیں،لیکن بیج کے لیے نہیں ہوتے،تو وہ کسی دوسرے زمیندار یا دُکاندار سے  کہتا ہے کہ آپ مجھ سے نارمل چاول لے لیں اور مجھے بیج کے لیے اچھی کوالٹی کے چاول دے دیں،پھر وہ دونوں کمی بیشی کے ساتھ چاولوں کا تبادلہ کر لیتے ہیں،مثلاً: اگر اچھی کوالٹی کے  چاول ایک من (40 کلو)ہوں،تو اس کے مقابلہ میں نارمل کوالٹی والے چاول ڈیڑھ من(60کلو)دینے پڑتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ شرعاً درست ہے یا نہیں ؟اگر درست نہیں،تو اس کی جائز صورت کیا ہو سکتی ہے،کیونکہ زمینداروں میں یہ طریقہ کافی رائج ہے اور انہیں اس  کی حاجت بھی ہوتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چاولوں کی چاولوں کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کرناسود ہونےکی وجہ سے سخت ناجائز،حرام اور گناہ ہے،اگرچہ ان کی کوالٹی میں فرق ہی کیوں نہ ہو۔تفصیل اس مسئلہ کی یوں ہے کہ سود کی دو علتیں ہیں ۔پہلی: قدر یعنی بیچی جانے والی چیزوں کا مکیلی یا موزونی ہونا(مکیلی سے مرادایسی چیز جو ماپ کر بِکتی ہو اور موزونی سے مرادایسی چیز جو وزن کے ساتھ بکتی ہو۔)اور دوسری :ان کی جنس کاایک ہونا۔اگر خریدوفروخت میں یہ دونوں علتیں پائی جائیں ،تو کمی بیشی اور ادھار دونوں حرام ہیں اور  دونوں نہ پائی جائیں ،تو کمی بیشی اور ادھار دونوں حلال ہیں اور ان میں سے ایک پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے ،تو کمی بیشی جائز اور ادھار حرام ہے ۔اب چاول کی چاولوں کے بدلے میں خریدوفروخت  کو دیکھا جائے،تو اس میں قدر اور جنس دونوں علتیں پائی جاتی ہیں، جنس یوں کہ دونوں طرف چاول ہیں اور قدر یوں کہ انہیں وزن کے ساتھ  بیچا جاتا ہے۔لہذا سوال میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق کمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت حرام ہے ،یونہی ادھار (مثلاً:چاول کی چاول  کے بدلے خریدوفروخت میں ایک طرف سے چاول دے دئیے جائیں اور دوسری جانب سے ادھار کر لیا جائے،تو یہ)بھی حرام ہے۔یاد رہے  کہ یہاں چاولوں کی کوالٹی میں فرق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،کیونکہ اَموالِ ربویہ (وہ اَموال جنہیں کمی بیشی کے ساتھ بیچنے کی صورت میں سود پایا جاتا ہے،مثلاً چاول اور گندم  وغیرہ)کی آپس میں خریدوفروخت ہو،تو حکمِ حدیث  کے مطابق ان کا وصف یعنی اعلیٰ اور گھٹیا ہونا نہیں دیکھا جاتا،بلکہ وزن کا اعتبار کیا جاتا ہے۔

   چاول کی چاول کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کرنا حرام اور سودی معاملہ  ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:’’ الذهب بالذهب مثلا بمثل والفضة بالفضة مثلا بمثل والتمر بالتمر مثلا بمثل والبر بالبر مثلا بمثل والملح بالملح مثلا بمثل والشعير بالشعير مثلا بمثل، فمن زاد او ازداد فقد اربى ‘‘ترجمہ:سونے کو سونے کے بدلے،چاندی کو چاندی کے بدلے،کھجور کو کھجور کے بدلے،گندم کو گندم کے بدلے،نمک کو نمک کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے برابر ، برابر بیچو۔پس جس نے زیادہ دیا یا لیا اس نے سود کا لین دین کیا۔(جامع ترمذی،ج3،ص533،مطبوعہ مصر)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سود کی علتوں کے بارے میں تفصیلی کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’نص علماؤنا قاطبۃ ان علۃ حرمۃ الربا القدر المعھود بکیل او وزن مع الجنس، فان وجدا حرم الفضل والنسا،وان عدما حلا، وان وجد احدھما حل الفضل وحرم النسا، وھذہ قاعدۃ غیر منخرمۃ، وعلیھا تدور جمیع فروع الباب‘‘ ترجمہ : ہمارے تمام علمائے کرام رحمہم اللہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ حرمت ربا کی علت وہ خاص اندازہ یعنی ناپ یا تول ہے، اتحاد جنس کے ساتھ۔پس  اگر دونوں علتیں (قدر و جنس)پائی جائیں، تو زیادتی اور ادھار دونوں حرام ،اگر دونوں نہ پائی جائیں ،تو دونوں حلال اور ان میں سے ایک پائی جائے، تو زیادتی حلال اور ادھار حرام ہے ۔ یہ ایک ایسا  قاعدہ ہے جو کہیں نہیں ٹوٹتا اور باب ربا کے جمیع مسائل اسی پر دائر ہیں۔‘‘( فتاوی رضویہ، ج 17، ص 446، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

      اَموالِ ربویہ میں وصف کا نہیں،بلکہ وزن کااعتبار ہو گا۔چنانچہ مجمع الانہر میں ہے:’’ (ولا يجوز بيع الجيد بالرديء) إذا قوبل بجنسه مما فيه الربا (إلا متساويا) لقوله  عليه الصلاة والسلام:جيدها ورديئها سواء‘‘ترجمہ:اموالِ ربویہ میں جنس کا جنس کے ساتھ مقابلہ ہو،تو اعلیٰ چیز کی ادنی کے ساتھ بیع برابری کی صورت میں ہی جائز ہے،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اموالِ ربویہ میں اعلیٰ اور ادنی برابر ہیں۔(مجمع الانھر،ج2،ص89،مطبوعہ دار احیاء التراث)

   اسی بارے میں  اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’اور اموال ربویہ میں  شرع مطہر نے وصف کا اعتبار ساقط فرمایا ہے، ولہٰذا ان کا جید و ردی یکساں  ہے ۔‘‘( فتاوی رضویہ، ج 17، ص 324،  رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   البتہ اس کے جواز کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں،جو  درج ذیل ہیں:

    (1)ایک جنس کو دوسری جنس کے بدلے میں خرید لیا جائے،مثلاً:چاول کو چاول کے بدلے خریدنے کی بجائے ،چاول کی گندم وغیرہ کے بدلے خریدو فروخت کر لی جائے۔اس صور ت میں جنس مختلف ہونے کی وجہ سے کمی  بیشی جائز ہو جائے گی ،لیکن یہ معاملہ نقد ہونا ضروری ہے،اگر کسی ایک جانب سے بھی ادھار ہوا،تو معاملہ پھر ناجائز ہو جائے گا۔

    (2)اگر جنس کی اُسی جنس مثلاً: چاول کی چاول کے بدلے ہی خریدوفروخت کرنی ہو،تو جس کے چاول  کم ہیں ،وہ ساتھ میں کوئی اور چیز مثلاً گندم یا رقم وغیرہ  ملا کر  خریدو فروخت کرلے،اگرچہ گندم یا  رقم کی مقدار بہت تھوڑی  ہو۔اس صورت میں مثلاً :اگر 40کلو چاول کی 60کلو چاولوں کے بدلے خریدوفروخت کرنی ہو،تو 40کلو چاول دوسری طرف 40کلو چاولوں کا بدل ہو جائیں گےاور ایک طرف جو 20کلو  چاول اضافی ہیں،ان کا بدل دوسری طرف کی وہ گندم یا رقم بن جائے گی۔

    (3)ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خرید و فروخت رقم کے بدلے کی جائے، مثلاً:اس طرح   کہ جس کے پاس اچھی کوالٹی والے چاول ہیں،وہ اولاً دوسرے شخص سے کم کوالٹی والے 60کلو چاول مخصوص رقم کے بدلے خرید لے  اورچاول وصول کر کے  رقم اس کے  حوالے کر دے۔یوں پہلی خریدوفروخت مکمل ہونے کے بعد  پھردوسرا شخص اسی رقم کے بدلے اعلیٰ کوالٹی کے40کلو چاول خرید لے۔ اس طرح کرنے سے  دونوں کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور سود بھی نہیں ہوگا۔

   پہلی صورت کے جواز پر دلیل:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الذھب بالذھب والفضۃ بالفضۃ والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالمح مثلاً بمثل سواء بسواء یدا بید،فاذا اختلفت ھذہ الاصناف،فبیعوا کیف شئتم اذا کان یدا بید‘‘ترجمہ:سونے کی سونے کے بدلے،چاندی کی چاندی کے بدلے،گندم کی گندم کے بدلے،جو کی جو کے بدلے،کھجور کی کھجور کے بدلے اور نمک کی نمک کے بدلے برابر برابر اور نقد و نقد خریدوفروخت کرو۔پس جب(خریدوفروخت کے وقت)یہ اَجناس مختلف ہوں،تو جیسے چاہو،خریدوفروخت کرو،جبکہ نقدو نقد ہو۔(الصحیح لمسلم،ج3،ص1211،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   دوسری صورت کے جواز پر دلیل:فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب’’الہدایہ‘‘ میں ہے:’’ولا یجوز بیع الزیتون بالزیت والسمسم بالشیرج حتی یکون الزیت والشیرج اکثر مما فی الزیتون والسمسم،فیکون الدھن بمثلہ والزیادۃ بالثجیر،لان عند ذلک یعری عن الربوٰ‘‘ترجمہ:اور زیتون کی زیتون کے تیل کے بدلے اور تِل کی تِل کے تیل کے بدلے خریدوفروخت جائز نہیں،یہاں تک کہ زیتون کا تیل اور تِل کا تیل اس تیل سے زیادہ ہو،جو زیتون اور تِل میں ہے۔پس اس صورت میں تیل تیل کی مثل ہو جائے گا اور(ایک طرف جو)تیل زیادہ ہے،وہ تِلچھٹ کے بدلے ہوجائے گا،کیونکہ ایسی صورت میں معاملہ سود سے خالی ہو گا۔(الھدایہ،ج3،ص89،مطبوعہ لاھور)

   تیسری صورت کے جواز پر دلیل:حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استعمل رجلا علی خیبر،فجاءہ بتمرجنیب،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اَکُلّ تمر خیبر ھکذا؟قال:لا، واللہ یا رسول اللہ!انا لناخذ الصاع من ھذا بالصاعین والصاعین بالثلاثۃ،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:لا تفعل،بع الجمع بالدراھم، ثم ابتع بالدراھم جنیبا ‘‘ترجمہ:بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا حاکم بنا کر بھیجا تھا،وہ وہاں سے عمدہ کھجوریں لائے،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟انہوں نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،اللہ کی قسم! ایسا نہیں۔ہم ان کا ایک صاع دو صاع کے بدلے میں لیتے ہیں اور دو صاع تین صاع کے بدلے میں۔پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا نہ کرو۔معمولی کھجوروں کو اولاً دراہم کے بدلے میں بیچا کرو،پھران دراہم کے بدلے میں عمدہ کھجوریں خرید لیا کرو۔(صحیح البخاری،ج1،ص293،مطبوعہ کراچی)

   اس طرح کی احادیث لکھنے کے بعد صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ بات وہی ہے کہ عمدہ کھجوریں خریدنا چاہتے ہیں،مگر اپنی کھجوریں زیادہ دیکر لیتے ہیں،سود ہوتا ہے اور اپنی کھجوریں روپیہ سے بیچ کر اچھی کھجوریں خریدیں،یہ جائز ہے۔‘‘(بھارِ شریعت،ج2،ص777،778، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم