Achi Quality Aur Low Quality Ka Chawal Mix Karke Bechna

اچھی کوالٹی اور کم کوالٹی کا چاول مکس کر کے بیچنے کا حکم

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1174

تاریخ اجراء: 01جمادی الثانی1445 ھ/15دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دو طرح کے چاول ہوں، ایک اچھا چاول ہو اور ایک اس سے کم کوالٹی کا، کیا ان دونوں کو ملا کر بیچا جاسکتا ہے؟

     اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کم کوالٹی کا چاول اگر الگ سے پکایا جائے، تو وہ صحیح نہیں بنتا جبکہ اچھے چاول میں ملا کر بنائیں تو وہ صحیح لگتا ہے، اس کا ریٹ اس طرح رکھا جاتا ہے کہ مثلاً:اچھا چاول 200 روپے کلو  ہے اور اس سے کم والا 100 روپے کلو ، یوں ملانے کے بعد دو کلو کی رقم ٹوٹل 300 روپے ہوئی ،پھر اس کا ایک کلو کا ریٹ  150  مقرر کر کے بیچا جاتا ہے ۔ کئی جگہوں پر اس طرح چاول کو ملا کر بیچا بھی جاتا ہے ،اس طرح بیچنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر عمدہ اور ناقص کوالٹی کے چاول مکس کیے اور گاہک کو بتا دیا کہ اس تناسب سے چاول مکس کیے گئے ہیں، تو یہ سودا بالکل جائز ہے ۔ یونہی اگر کوئی مخصوص قسم کے چاول ایسے ہوں جس میں دو تین اقسام کے چاول مکس ہوتے ہیں اور ان کا الگ سے نام رکھ دیا گیا ہے ، اسی نام سے چاول خریدے بیچے جاتے ہیں تو یہ سودا بھی جائز ہے ۔ یونہی گاہک کو بتایا نہیں مگر اسے پہلے سے معلوم ہے کہ اس میں فلاں فلاں قسم کے چاول مکس کیے گئے ہیں تو بھی سودا جائز ہے البتہ جس گاہک کو یہ معلوم نہ ہو ، نیا آیا ہو اس کو ملاوٹ کا بتانا ضروری ہے ۔

   حدیث شریف میں ہے :’’من سل علینا السلاح فلیس منا ومن غشنا فلیس منا‘‘ یعنی جس نے ہم پر تلواراٹھائی  وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہم سے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ۔(صحیح مسلم،جلد:1،کتاب الایمان، صفحہ:143،مطبوعہ :موسسہ قرطبہ)

   اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ملاوٹ سے مراد یا چیز کا عیب چھپا کر فروخت یا اصل میں نقل ملادینا غرضکہ ہر کاروباری دھوکہ مراد ہے ۔‘‘(مرأۃ المناجیح ،جلد:5،صفحہ :429،مطبوعہ لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے :’’اگریہ مصنوعی جعلی گھی وہا ں عام طور پر بکتاہے کہ ہر شخص اس کے جعل ہونے پر مطلع ہے اور باوجود اطلاع خریدتاہے تو بشرطیکہ خریداراسی بلد کا ہو، نہ غریب الوطن تازہ وارد ناواقف اور گھی میں اس قدرمیل سے جتنا وہا ں عام طورپر لوگو ں کے ذہن میں ہے اپنی طرف سے اور زائد نہ کیا جائے نہ کسی طرح اس کا جعلی ہونا چھپا یاجائے، خلاصہ یہ کہ جب خریدارو ں پر اس کی حالت مکشوف ہو اور فریب ومغالطہ راہ نہ پائے تو اس کی تجارت جائز ہے، آخر گھی بیچنا بھی جائز اور جوچیز اس میں ملائی گئی اس کا بیچنا بھی، اور عدم جواز صرف بوجہ غش وفریب تھا، جب حال ظاہر ہے غش نہ ہوا، اور جواز رہا جیسے بازاری دودھ کہ سب جانتے ہیں کہ اس میں پانی ہے او ر باوصف علم خریدتے‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد:17 ، صفحہ :150 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم