مجیب: مفتی ابوالحسن محمد
ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: Grw-207
تاریخ اجراء: 09جمادی الاولی1443ھ/14دسمبر 2021 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس
مسئلہ کے بارے میں کہ
(1) مارکیٹ میں ہوٹلوں اور دکانوں کے سامنے کچھ خالی
جگہ موجود ہوتی ہے ،جو ہوٹل یا دکان
کے مالکان کی نہیں ،بلکہ سرکاری جگہ ہوتی ہے اور
لوگوں کے راستے کے لیے مخصوص ہوتی ہے ،اب اگر کوئی شخص وہاں
اسٹال وغیر ہ لگانا چاہے، تو ہوٹل یا دکان والے اس سے ماہانہ کرایہ
وصول کرتے ہیں ،کیا یہ کرایہ وصول کرنا ،جائز ہے ؟
(2) ان لوگوں کا
راستے میں اسٹال لگانا کیسا
ہے؟بالخصوص جب ان کی وجہ سے راستہ
تنگ پڑ جائے اور گزرنے والوں کو دشواری
کا سامنا کرنا پڑے ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)پوچھی گئی صورت کے مطابق
سرکار ی جگہ پر اسٹال لگانے والو ں سے دکان یا ہوٹل کے مالکان کا
کرایہ وصول کرنا، جائز نہیں کہ اجارے کی شرائط میں سے
ایک شرط یہ ہے کہ جو چیز اجارے پر دی جا رہی ہے، وہ
بندے کی ملکیت میں ہو،جب کہ مذکورہ بالا صورت میں وہ جگہ
ان کی ملکیت میں ہی نہیں، لہذا ان کا کرایہ
لینا بھی جائز نہیں ۔
اجارے
کی شرائط کے بارے میں بدائع الصنائع میں ہے :’’ومنھا الملک والولایۃ فلا تنفذ اجارۃ الفضولی لعدم
الملک والولایۃ‘‘ ترجمہ :
اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط
ملک اور ولایت ہے ،پس فضولی کا اجارہ کرنا ملک اور ولایت
نہ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع ، جلد 4، صفحہ 177، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی
ہندیہ میں ہے :’’اذا بنی المشرعۃ علی ملک العامۃ ثم آجرھا من
السقائین لا یجوز سواء آجر منھم للاستقاء او آجر منھم لیقوموا
فیھا ویضعوا القرب ،كذا في الذخيرة‘‘ ترجمہ : جب کسی نے عوام کی ملکیت پر گھاٹ بنایا ،پھر
اس نے وہ جگہ پانی پلانے والوں کو کرایہ پر دے دی، تو یہ
جائز نہیں، خواہ اجارہ پانی پینے پر کیا ہو یا وہاں
قیام کرنے اور برتن رکھنے پر کیا ہو، ایسا ہی ذخیرہ
میں ہے ۔ (فتاوی ھندیہ ، جلد 4، صفحہ 453، دار الفکر
، بیروت )
(2) راستے میں اس شرط کے ساتھ عارضی اسٹال
، ٹھیلہ لگانا، جائز ہے کہ راستہ وسیع ہو اور اسٹال لگانے
کی وجہ سے گزرنےوالوں کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ
کرنا پڑے اور قانوناً بھی اس کی اجازت ہو ، لہذا اگر اسٹال لگانے سے راستہ
تنگ ہو جائے ، گزرنے والوں کو تکلیف ہو یا قانوناً ایسی
جگہ اسٹال لگانا جرم ہوکہ جس کی وجہ
سے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گایا سزا
اٹھانی پڑے گی یا رشوت دینی پڑے گی، تو ایسی صورت میں
راستے میں اسٹال لگانا ناجائز ہو گا ۔
راستے
میں سامان بیچنے کے متعلق منحۃ السلوک شرح تحفۃ
الملوک میں ہے :’’(ویباح الجلوس فی الطریق للبیع اذا کان واسعا
لایتضر الناس بہ ) ای بجلوسہ (ولو کان الطریق ضیقا لا
یجوز )لان المسلمین یتضررون بذلک وقال علیہ السلام :لا
ضرر و لاضرار فی الاسلام ‘‘
ترجمہ : راستے میں اشیاء بیچنے کے لیے بیٹھنا جائز
ہے، جب کہ راستہ کشادہ ہو کہ لوگوں کو اس
کے بیٹھنے سے تکلیف نہ ہوتی ہو اور اگر راستہ تنگ ہو، تو جائز
نہیں ،کیونکہ مسلمانوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے اور رسول
پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : اسلام میں نہ
اذیت لینا ہے ،نہ دینا ہے ۔ (منحۃ السلوک
شرح تحفۃ الملوک ، جلد 1،صفحہ 428، دارالفکر ، بیروت )
فتاوی
قاضی خان میں ہے :’’ان کان
الطریق واسعا لا یتضرر الناس بقعودہ لا باس بالشراء منہ‘‘ ترجمہ : اگر راستہ کشادہ ہے جس
میں بیٹھنے سے لوگوں کو گزرنے میں تکلیف نہیں
ہوتی ،تو اس سے خریدنے میں کوئی حرج نہیں ۔ (فتاوی
قاضی خان،جلد2 ، صفحہ 142،دارالفکر ، بیروت )
خود کو
ذلت میں ڈالنے سے بچانا ضروری ہے، جیسا کہ امام ابو
عیسی محمد بن عیسی
ترمذی(المتوفی :279ھ) اپنی کتاب جامع الترمذی
میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں :’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی للمؤمن ا ن یذل
نفسہ ‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ
اپنے آپ کو ذلت میں مبتلا کرے۔ (جامع الترمذی ، باب ما جاء فی النھی عن سب
الریاح،جلد4، صفحہ523، مطبوعہ مصر)
صاحبِ
عمدۃ القاری ،علامہ محمود بن احمد عینی علیہ رحمۃ اللہ
القوی فرماتے ہیں :’’اذلال
النفس حرام‘‘یعنی : اپنے آپ کو ذلت پر
پیش کرنا حرام ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ، جلد 4، صفحہ 619، مطبوعہ کوئٹہ)
امام
اہلسنت، مجدد دین و ملت ،الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ
الرحمن فرماتے ہیں :’’ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو اور
جرم کی حد تک پہنچے شرعاً بھی ناجائز ہو گا کہ ایسی بات
کے لیے جرمِ قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے
لیے پیش کرنا شرعاً بھی
روا نہیں ۔ ‘‘ (فتاو ی رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 192، رضا
فاؤنڈیشن ، لاھور )
نیز
راستے میں اسٹال لگانے سے لوگوں کوضرر ہو رہا ہو، تو اب فقہائے کرا م نے اسٹال لگانے کی ممانعت
کے ساتھ ساتھ اسٹال والوں سے اشیاء
خریدنے سے بھی منع فرمایا اور اسے گناہ پر مدد قرار دیا
ہے کہ یہ لوگ تبھی تو راستے
میں بیٹھے رہتے ہیں، جب لوگ ان سے خریداری کرتے
ہیں اگر خریداری ترک کر دیں، تو یہ بھی راستہ
چھوڑ دیں ۔ لہذا ایسی صورت میں ان سے
خریداری کرنا بھی ممنوع ہے۔
محیط
برہانی میں ہے :’’وسئل
ابو القاسم عمن یبیع ویشتری فی الطریق ، قال:
ان کان الطریق واسعا ولا یکون فی قعودہ ضرر للناس فلا باس بہ
۔ وعن ابی عبد اللہ القلانسی : انہ کان لا یری
بالشراء منہ باسا ، وان کان للناس ضرر فی قعودہ ، والصحیح ھو الاول ،
لانہ لو علم انہ لا یشتری منہ لا یبیع علی
الطریق فکان ھذا اعانۃ لہ علی المعصیۃ ، وقد قال
اللہ تعالی : ﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ
وَالْعُدْوَانِ ﴾‘‘ ترجمہ: امام ابو قاسم سے راستے
میں خریدو فروخت کرنے والے کے بارے میں سوال ہوا ،تو آپ نے فرمایا : اگر راستہ وسیع ہو اور
اس(بیچنے والے ) کے بیٹھنے سے لوگوں کو ضرر نہ ہو، تو کوئی حرج
نہیں اور ابو عبد اللہ قلانسی
سے مروی ہے کہ وہ اس (راستے
میں بیٹھ کر بیچنے والے ) سے خریداری میں
کوئی حرج نہیں سمجھتے، بھلے اس کے بیٹھنے سے لوگوں کو ضرر ہوتا
ہو ، مگر پہلا قول ہی صحیح ہے ،کیونکہ اگر وہ بیچنے والا
جان جائے کہ لوگ اس سے خریداری نہیں کریں گے ،تو وہ راستے
پر بیٹھ کر بیچنا چھوڑ دے گا ، پس ایسی صورت میں
(جب لوگوں کو ضرر ہو تا ہو) اس سے
خریدنا گناہ پر مدد کرنا ہو گا اور
اللہ تعالی فرماتا ہے :اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو
۔(المحیط البرھانی ، جلد 10 ،
صفحہ 370، المجلسی العلمی ،بیروت)
فتاوی
بزازیہ میں ہے :’’وان اضر
بالمارۃ لا یحل الشراء منہ‘‘ترجمہ
: اگر گزرنے والوں کو ضرر ہو، تو اس سے خریدنا ،جائز نہیں ۔(الفتاوی البزازیہ، جلد 1، صفحہ 408، مطبوعہ کراچی )
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟