خریداری میں رقم ایڈوانس دے کر سامان ایک سال بعد لینا... کیا یہ درست ہے؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-10576

تاریخ اجراء: 24 جمادی الاخریٰ  1144 ھ/19 فروری  2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارےمیں کہ زید کے  پاس کچھ رقم موجود ہے، جو اس  نے گھر کی تعمیرات میں استعمال کرنے کےلیے رکھی ہوئی ہے، لیکن فی الحال تعمیرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تقریباً ایک سال کے بعد تعمیرات شروع کرے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ سیمنٹ بیچنے والےشخص سےبیسٹ وےکمپنی کے بلیک سیمنٹ کی موجودہ ریٹ475روپے کے حساب سے پچاس کلووالی130بوریاں 61750روپے کے بدلے خریدلے،  لیکن سیمنٹ کی وصولی  بیچنے والے کی دکان سے ایک سال بعدچنددنوں کے وقفے سے تھوڑی تھوڑی کرکے اٹھائے، سوال یہ ہے کہ شرعی اعتبارسے یہ سودا کس طرح درست ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں سیمنٹ کی قیمت ابھی اداکرکے سیمنٹ ایک سال بعد کسی معین تاریخ پر لینااگر بیع سلم کے طورپرہواوراس سودے میں بیع سلم کی تمام شرائط کالحاظ رکھاجائےتو جائزہے،مگریہ ذہن میں رکھیں کہ بیع سلم کی ایک بھی شرط کی خلاف ورزی کی ،تو یہ سودا ناجائزاور سودکے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔

   یادرہے! بیع سلم ایسی بیع ہے ،جس میں خریدی ہوئی چیزکاسودے کے وقت موجودہوناضروری نہیں، البتہ پورے مال کی  جو بھی قیمت بن رہی ہے، وہ سوداکرتے وقت ادا کرناضروری ہے۔

 موجودہ سودے میں بیع سلم کی شرائط:

   سیمنٹ کی خریداری کے اس سودے میں سیمنٹ کی کمپنی اورقسم  بیسٹ وے، یونہی كالی سیمنٹ ہونامتعین ہے،یونہی سیمنٹ کی رقم 61750 روپےاور سیمنٹ کی مقدارپچاس کلووالی سیمنٹ کی 130بوریاں  بھی متعین ہے اور سودے میں یہ بات بھی طے ہے کہ  ایک سال بعد سیمنٹ والے کی دکان سے خریدارخودسیمنٹ وصول کرے گا،لیکن سیمنٹ وصولی کی  معین تاریخ بھی معاہدہ میں بیان ہوناضروری ہے ،البتہ یہ ضروری نہیں کہ تمام سیمنٹ کی بوریاں  ایک دن میں وصول کی جائیں،بلکہ آپ  متوقع حاجت کوسامنے رکھتے ہوئے مختلف معین تاریخیں بھی مقررکرسکتے ہیں  اور ان معین تاریخوں میں  کس  کس تاریخ کو کتنی سیمنٹ لی جائے گی ؟یہ  بتانا بھی ضروری نہیں۔ مثلاًآپ یوں معاہدہ کرسکتے ہیں کہ  یکم ستمبر2020 سے 30 نومبر2020 تک  دو مرتبہ  مال اٹھایا جائے گا، پہلا یکم ستمبر کو اور دوسرا 30 نومبر کو، دونوں مرتبہ حسبِ ضرورت مال اٹھایا جائے گا۔

   اب تک جو باتیں بیان ہوئیں ان کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا بھی فریقین پر لازم  ہے۔

·               بیع سلم کایہ معاہدہ جس مجلس میں ہوگا،خریدار اسی مجلس میں ساری رقم بیچنے والے کے قبضے میں دے گا۔

·               یہ بھی ضروری ہے کہ مذکورہ سیمنٹ سوداہونے سے ڈیلیورہونے کی تاریخ  تک ہر وقت بازارمیں مل سکے،سیمنٹ اگرچہ ایک ایسی چیز ہے جو عام طور پر مارکیٹ میں موجود رہتی ہے، لیکن اس شرط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے،کیونکہ بہت ساری اشیاء ایسی ہیں کہ اس شرط کے نہ پائے جانے کی وجہ سےان اشیاء میں بیع  سلم ممکن نہیں ہوتی۔

·               بوری کتنے سائز کی ہوگی یہ بھی معاہدے میں طے ہونا ضروری ہے کہ اس میں اتنا مال ہوگا۔

خریدار بیچنے والے سے درج ذیل الفاظ میں بیع سلم کاایجاب کرے :

   130 بوری  سیمنٹ  بعوض فی بوری475  بیسٹ وے کمپنی کابلیک سیمنٹ61750 روپے کے بدلے آپ سے خریدا،ہربوری کا وزن پچاس کلو  ہوگا اورہمارایہ سودا،بیع سلم کے طورپرہے۔کُل مال کی رقم فوری طور پر دی جا رہی ہے ، اس سودے کی رُوسے فروخت کندہ کی ذمہ داری ہے کہ یہ سیمنٹ بیسٹ وے کمپنی کابلیک سیمنٹ ہی ہو۔سب بوریاں درست حالت میں ہوں ،پھٹی ہوئی نہ ہوں۔یہ سیمنٹ میں فلاں ۔۔۔۔فلاں ۔۔۔ ۔۔تاریخوں میں۔۔۔۔قسطوں میں آپ کی دکان سے اٹھاؤں گا۔اگرآپ کے پاس اس تاریخ کوسیمنٹ موجودنہ ہو،تواس صورت میں بھی آپ  پرلازم ہوگاکہ کہیں سے بھی مذکورہ  سیمنٹ  خریدکرمجھے مطلوبہ مقدار میں سیمنٹ فراہم کریں۔

سامنے والا اس سودے کو منظور کرے گا اور اگر تحریری معاہدہ ہو ،توبہتر یہ ہے کہ دونوں کے دستخط کے ساتھ ساتھ گواہوں کےبھی دستخط کروالیے جائیں۔

   بیع سلم میں مسلم فیہ کی وصولی کے لیے ایک میعادمقررکرناشرط نہیں۔ جیساکہ دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :’’ولیس الاجل الواحدفی السلم بشرط فیعقدالسلم علی ان تسلم خمس وعشرون کیلۃ عندتمام الشھرالاول وخمسون کیلۃ عندتمام الشھرالخامس وعشرکیلات عندتمام الشھرالسادس من وقت العقد“ یعنی  بیع سلم میں مبیع لینے کی ایک مدت طے کرنا شرط نہیں، لہذا بیع سلم کاعقدیوں بھی کیاجاسکتاہے کہ وقت عقدسے  ایک مہینا مکمل ہونے پر پچیس کیل سپردکیاجائے گااورپانچواں مہینا مکمل ہونے پر پچاس کیل سپرد کیا جائے گا،چھٹامہینا مکمل ہونے پردس کیل سپردکیاجائے گا۔(دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام ،جلد1،صفحہ354،دارالکتب العلمیہ بیروت)

   عالمگیری میں ہے :’’لاباس بالسلم فی نوع واحدممایکال ویوزن علی ان یکون حلول بعضہ فی وقت وبعضہ فی وقت آخرولایحتاج الی  بیان حصۃ کل واحدمنھما‘‘یعنی جن چیزوں کاکیل  اوروزن کیاجاتاہے،ان میں سے ایک نوع میں اس شرط پرسلم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس نوع کی بعض ادائیگی ایک وقت میں ہوگی اوربعض ادائیگی دوسرے وقت میں ہوگی اوران دونوں میں سے ہرایک کاحصہ بیان کرناضروری نہیں۔ (فتاوی عالمگیری ،جلد3،صفحہ181، مطبوعہ کوئٹہ)

   الحاوی القدسی  میں ہے :’’لاباس بالسلم فی نوع واحدممایکال ویوزن علی ان یکون حلول بعضہ فی وقت وبعضہ فی وقت آخر ولایجوز السلم فی اجل مجھول ‘‘یعنی جن چیزوں کاکیل  یاوزن کیاجاتاہے،ان میں سے ایک نوع میں اس شرط پرسلم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس نوع کی بعض ادائیگی ایک وقت میں ہوگی اوربعض ادائیگی دوسرے وقت میں ہوگی ،جبکہ اجلِ مجہول میں بیع سلم جائزنہیں۔(الحاوی القدسی ،جلد2،صفحہ51، نوریہ رضویہ ،لاھور)

   درمختار میں ہے :’’لاباس بالسلم فی نوع واحد،علی ان یکون حلول بعضہ فی وقت وبعضہ فی وقت آخر‘‘یعنی ایک نوع میں اس شرط پرسلم کرنے میں حرج نہیں کہ اس نوع کی بعض ادائیگی  ایک وقت میں ہوگی اوربعض ادائیگی دوسرے وقت میں ہوگی۔ (درمختارمع ردالمحتار،جلد7،صفحہ487،مطبوعہ کوئٹہ )

   جدالممتارمیں ہے:’’قال ای الدر:ان یکون حلول بعضہ فی وقت ۔۔الی آخرہ۔۔۔وان لم یقدرکلا البعضین کماافادہ فی الھندیۃ‘‘یعنی درمختارمیں فرمایا: ایک نوع میں اس شرط پرسلم کرنے میں حرج نہیں کہ اس نوع کی بعض ادائیگی  ایک وقت میں ہوگی اوربعض ادائیگی دوسرے وقت میں ہوگی،اگرچہ دونوں میں سے ہرایک کی مقداربیان نہ کرے ۔جیساکہ اس کاافادہ ہندیہ میں فرمایا۔ (جدالممتار،جلد6، صفحہ145،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم