15 Din Ke Udhar Par Cheez Bechi Tu Payment Late Hone Par Zaid Raqam Lena

پندرہ دن کے ادھار پر چیز بیچی تو پیمنٹ لیٹ ہونے کی صورت میں زائد رقم لینا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-1059

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1445 ھ/29اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا اجناس کا  کام ہے میں نے اپنے ایک گاہک کو پندرہ  دن کے ادھار پر مال دیا ہے، پیمنٹ کی ادائیگی کے وقت اس نے رقم ادا نہیں کی ، کہتا ہے کہ میں ایک مہینے میں  پیسےدوں گا ۔ مہینے والے کسٹمر کا ریٹ پندرہ  دن والے کی بہ نسبت   زیادہ ہوتا ہے ۔پھر میں نے کہا کہ اگر مہینے بعد پیمنٹ دو گے تو زیادہ ریٹ سے لوں گا ۔ وہ بھی زیادہ دینے پر راضی ہے،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں پندرہ  دن کے حساب سے ہی  رقم کا لین دین شرعاً  لازم  ہے، اس سے ایک روپیہ بھی اوپر لینا دینا مدت بڑھانے کا عوض ہوگا  جوکہ سود ہے ، اور سود ناجائزو حرام  اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔نیز  مذکورہ صورت میں  خریدار و فروخت کنندہ   دونوں   پر سودی پیشکش کرنے اور اس پیشکش کو قبول کرنے کے سبب توبہ  اور آئندہ کے لئے اس طرح کے غیر شرعی فعل اوربے احتیاطی سے بچنا شرعاً لازم ہے۔ 

   سود کی حرمت پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :”وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ“ترجمۂ کنزالایمان:”اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔“( پارہ3 ،سورۃ  البقرۃ ، آیت: 275 )

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ بغوی میں ہے : ”ان اهل الجاهلية كان احدهم اذا حل ماله على غريمه فطالبه به فيقول الغريم لصاحب الحق : زدني في الاجل حتى ازيدك في المال ، فيفعلان ذلك و يقولون سواء علينا الزيادة في اول البيع بالربح او عند المحل لاجل التاخير ، فكذبهم الله تعالى فقال : واحل الله البيع وحرم الربا“ یعنی زمانہ جاہلیت میں جب کسی شخص کی دین کی مدت پوری ہوجاتی تو وہ اپنے مدیون سے دَین کا مطالبہ کرتا تو مدیون اپنےدائن سے کہتا کہ میرے لیے مدت میں اضافہ کردو تو میں تمہیں مال بڑھا کر واپس کروں گا۔ پس وہ دونوں اسی طرح کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر برابر ہے کہ یہ زیادتی سودے کے شروع ہی میں نفع کے ساتھ طے ہو یا پھر بعد میں اضافہ کیا جائے۔ اس پر اللہ عزوجل نے ان کی تکذیب فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ”اللہ نے حلال کی بیع اور حرام کیا سُود۔“( تفسير بغوی ، جلد1، صفحہ 381 ، 382 ،  دار احیاء التراث ، بیروت)

   ادھار سودے میں مدت بڑھانے کے عوض ملنے والا اضافہ سود ہے۔ جیسا کہ النتف فی الفتاوی میں ہے : ”ان يبيع رجلا متاعا بالنسيئة فلما حل الاجل طالبه رب الدين فقال المديون زدني في الاجل ازدك في الدراهم ففعل فان ذلك ربا“ یعنی ایک شخص نے ادھار سامان بیچا اور جب ادھار کی مدت پوری ہوگئی تو دائن نے مدیون سے دَین کا مطالبہ کیا مدیون نے دائن سے کہا کہ مجھے مزید مہلت دے دو میں دراہم بڑھا دوں گا یہ زیادتی سود ہے۔( النتف فی الفتاوی ، صفحہ485 ، مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم