ڈیبِٹ کارڈ کے ڈِسکاؤنٹ کا شرعی حکم؟

مجیب:مولانا نوید صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5138

تاریخ اجراء:26رجب المرجب 1442ھ/11مارچ2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مخصوص  بینک کے ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے خریداری کرنے پر بعض شاپنگ مارٹ اور ریسٹورنٹ وغیرہ ڈسکاؤنٹ  آفر دیتے ہیں۔ یہ پیش کش عموماً محدود مدت کے لئے ہوتی ہے۔ اس صورت میں ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ڈسکاؤنٹ پر خریداری کی جا سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے خریداری پر ڈسکاؤنٹ آفر دو طرح سے ہوتی ہے۔ (1) بائع کی طرف سے۔ (2): بینک کی طرف سے۔

    یہ ڈسکاؤنٹ بہر دو صورت جائز ہے۔اول اس لئے کہ یہ خود بائع کی طرف سے ثمن میں کمی ہے ۔ بائع کو ثمن میں کمی کرنے کا شرعاً اختیار ہے اور وہ ثمن میں جتنی کمی کرے گا وہ کمی اصل عقد سے ملحق ہو جائے گی۔درمختار میں ہے:" و صح الحط منہ و لو بعد ھلاک المبیع و قبض الثمن و الزیادۃ و الحط یلتحقان باصل العقد"بائع کی طرف سے ثمن کی کمی صحیح ہے اگر مبیع کے ہلاک ہونے اور ثمن پر قبضہ کرنے کے بعد ہو۔ ثمن میں زیادتی و کمی دونوں اصل عقد کے ساتھ ملحق ہو جائیں گی۔

 (درمختار مع ردالمحتار،ج7،ص396،مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:" بیشک جائز ہے کہ بائع کوئی چیز بیچے  اور اسی مجلس خواہ دوسری میں کل ثمن یا بعض مشتری کو معاف کر دے اور اس معافی کے سبب وہ عقد عقدِ بیع ہی رہے گا اور اسی کے احکام اس پر جاری ہوں گے۔"

(فتاوی رضویہ،ج17،ص246،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    دوسری صورت بھی جائز ہے  اگرچہ بینک میں رکھوائی گئی رقم قرض کے حکم میں ہے لیکن یہ ڈسکاؤنٹ  بینک کی طرف سے لفظاً و عرفاً غیر مشروط  نفع ہےکہ بینک میں جب اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے اور ڈیبٹ کارڈ بنوایا جاتا ہے تو اس میں ایسی کوئی شرط  لفظاً نہیں رکھی جاتی ہے کہ بینک ڈیبٹ کارڈ ہولڈر کو اس کے ذریعے خریداری کرنے پر ڈسکاؤنٹ دے گا  اور نہ ہی اس پرعرف جاری ہے کہ بینک اپنے ڈیبٹ کارڈ ہولڈر کو ڈسکاؤنٹ آفر دیتا ہی دیتا ہے  کہ یہ آفر  کبھی ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی۔ یہ بالکل اس مدیون کی طرح ہے جو اپنے دائنین میں کسی کو  غیر مشروط طور پر زائد لوٹاتا ہے اور کسی کو اس کا پورا دَین لوٹاتا ہے اور مقروض کا اپنے مقرض کو غیر مشروط نفع  دینا جائز بلکہ مستحسن  اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے:”عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال اتیت النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و کان لی علیہ دین فقضانی و زادنی “ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ۔ میرا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے میرا قرض بھی ادا فرمایا اور مجھے کچھ زیادہ بھی دیا۔

      (صحیح بخاری،ج1،ص420،مطبوعہ لاھور )

    صحیح بخاری و مسلم میں ہے:” عن ابی ھریرة رضی اللہ تعالی عنہ قال کان لرجل علی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سن من الابل فجاءہ بتقاضاہ فقال اعطوہ فطلبوا سنہ فلم یجدوا لہ الا سناً فوقھا فقال اعطوہ فقال اوفیتنی اوفاک اللہ فقال النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان خیارکم احسنکم قضاء“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص کا نبی اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر ایک عمر کا اونٹ قرض تھا وہ شخص خدمت اقدس میں آیا اور قرض کا تقاضا کرنے لگا ، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کو اونٹ دے دو ۔ صحابہ کرام نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا تو اس عمر کا اونٹ نہ ملا مگر اس سے زیادہ عمر کا اونٹ ملا ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اونٹ اس شخص کو دے دو ۔ اس شخص نے عرض کی آپ نے مجھے بھرپور عطا فرمایا ۔ اللہ تعالی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بھرپور عطافرمائے۔ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے بہترین شخص وہ ہے ، جو قرض اچھے طریقے سے ادا کرے ۔

 (صحیح بخاری،ج1،ص420،مطبوعہ لاھور )

    صحیح بخاری میں ہے:” قال ابن عمر: القرض الی اجل لا باس بہ و ا ن اعطی افضل من دراھمہ ما لم یشترط“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: معین مدت تک قرض دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ وہ اس کے دراہم سے اعلی دراہم دے جبکہ یہ مشروط نہ ہو۔

    (صحیح بخاری،ج1،ص422، مطبوعہ لاھور )

    امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” فیہ استحباب الزیادة فی اداءالدَین“ اس میں قرض کی ادائیگی میں زیادہ دینے کا استحباب ہے۔

      (شرح نووی علی مسلم،ج2،ص29،مطبوعہ کراچی )

    طحطاوی علی الدر میں ہے : ’’ فان لم تکن مشروطة فدفع اجود فلا باس “اگر نفع عقد میں مشروط نہ ہو پھر اس سے بہتر واپس کیا تو کوئی حرج نہیں۔

 (طحطاوی علی الدر،ج3،ص105،مطبوعہ کوئٹہ )

    فتح القدیر میں ہے : ’’ الاتری انہ لو قضاہ احسن مما علیہ لا یکرہ اذا لم یکن مشروطاً و قالوا و انما یحل ذلک عند عدم الشرط اذا لم یکن فیہ عرف ظاھر، فان کان یعرف ان ذلک یفعل لذلک فلا “ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اگر وہ اس سے بہتر ادا کرے جو اس پر لازم ہے تو ممنوع نہیں جبکہ یہ مشروط نہ ہو اور علماءنے فرمایا کہ یہ نفع شرط نہ ہونے کے وقت جائز ہے جبکہ اس میں عرف ظاہر نہ ہو اگر معروف ہو تو جائز نہیں۔

            (فتح القدیر،ج6،ص356،مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:” زیادہ دینا نہ لفظاً موعود نہ عادةً معہود، تو معنی ربا یقینا مفقود  بلکہ یہ صرف ایک نوع احسان و کرم و مروت ہے اور بے شک مستحب و ثابت بہ سنت ۔ “

(فتاوی رضویہ،ج17،ص320،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

     تنبیہ! یہ یاد رہے کہ مستقبل  میں اگر بینک کی طرف سے  یہ منفعت صراحۃً یا دلالۃً مشروط ہو گئی ، تو سود ہونے کی وجہ سے بہرحال ناجائز و حرام ہو گی اور اس وقت یہ فتویٰ کارآمد نہیں ہو گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم