اُدھار مال کی خرید و فروخت کرکے قیمت کا ادلا بدلا کرنا؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ  شعبان المعظم 1442 ھ اپریل

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا کپڑے کا ہول سیل کا کاروبار ہے۔ زید نے 50,000 روپے کا کپڑا  بکر  سے اُدھار خریدا ،  اس کے بعد بکر کو بھی زید سے کچھ خریدنے کی ضرورت پیش آئی اور بکر نے 35,000 روپے کا کپڑا زید سے اُدھار خریدا۔ یہ دونوں سودے الگ الگ مال پر ہوئے  جب ادائیگی کرنے کا وقت آیا تو زید نے 50,000 روپے میں سے 35,000 روپے منہا کرکے باقی 15,000 روپے بکر کو ادا کردئیے۔ کیا ایسا کرنا ، جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی ہاں! پوچھی گئی صورت کے مطابق رقم کی ادائیگی کرنا ، جائز ہے۔  ادائیگی کے اس طریقہ کار کو اصطلاحِ شرع میں “ مُقَاصَّہْ “ (Replacement / Clearness) کہتے ہیں۔ منع کی کوئی وجہ نہ پائی جاتی ہو تو بہت ساری ایسی جگہیں ہیں جہاں مقاصہ سے کام لینا جائز ہے۔

    چنانچہ صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ القوی لکھتے ہیں: ’’ایک شخص کے دوسرے پر پندرہ روپے ہیں مدیون نے دائن کے ہاتھ ایک اشرفی پندرہ روپے میں بیچی اور اشرفی دیدی اور اس کے ثمن و دین میں مُقَاصَّہْ کرلیایعنی ادلا بدلا کرلیا کہ یہ پندرہ ثمن کے ان پندرہ کے مقابل میں ہوگئے جو میرے ذمّے باقی تھے ایسا کرنا صحیح ہے۔ “

(بہارِ شریعت ، 2 / 828)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم