تصویر والا لباس بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ  شعبان المعظم 1442 ھ اپریل

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کپڑوں پر انسان یا جانور کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ  ایسالباس  پہننا یا بچّوں کوپہناناکیسا ہے؟ نیز ایسے کپڑے بیچنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر کپڑوں پر بنی ہوئی جاندار کی تصویر اتنی بڑی ہے کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو چہرہ واضح ہو تو ایسا لباس پہننا یا بچوں کو پہنانا ، جائز نہیں ۔ نیز ایسا لباس بیچنا بھی ناجائز ہے۔  ہاں اگر کسی طرح اس کا چہرہ مٹادیا جائے تو پھر اس کا پہننا ، بچوں کو پہنانا اور  بیچنا بھی جائز ہوگا۔

    اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن  فرماتے ہیں : “ کسی جاندار کی تصویر جس میں اس کا چہرہ موجود ہو اور اتنی بڑی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے سے دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل ظاہر ہو ، اس طرح کی تصویر جس کپڑے پر ہو اس کا پہننا ، پہنانا یا بیچنا ، خیرات کرنا سب ناجائز ہے اور اسے پہن کر نماز مکروہِ تحریمی ہے جس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔  ایسے کپڑے پر سے تصویر مٹادی جائے یا اس کا سر یا چہرہ بالکل محو کردیا جائے ، اس کے بعد اس کا پہننا ، پہنانا ، بیچنا ، خیرات کرنا ، اس سے نماز ، سب جائز ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسے پکے رنگ کی ہو کہ مٹ نہ سکے دھل نہ سکے تو ایسے ہی پکے رنگ کی سیاہی اس کے سر یا چہرے پر اس طرح لگادی جائے کہ تصویر کا اتنا عضو محو ہوجائے صرف یہ نہ ہو کہ اتنے عضو کا رنگ سیاہ معلوم ہو کہ یہ محو ومنافی صورت نہ ہوگا۔ “

(فتاویٰ رضویہ ، 24 / 567)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم