رمضان سستا بازار میں چیزیں مہنگی بیچنے کا شرعی حکم

مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7282

تاریخ اجراء:15رمضان المبارک1442 ھ28اپریل2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گورنمنٹ کی طرف سے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں رمضان بازار لگائے جاتے ہیں،جن میں دُکانداروں کے لیے مناسب نفع رکھ کرحکومت اشیائےخوردونوش پرقیمتیں متعین کردیتی ہے اورقانون نافذکرنے والے ادارے خوب متحرک ہوتے ہیں کہ اگرکوئی دُکاندارمتعین قیمت سے زیادہ میں فروخت کرے،تواس کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہیں،یہاں تک کہ دُکانداریااس کاسامان اٹھاکرلے جاتے ہیں یا مالی جرمانہ عائد کرتے ہیں اوراسے ذلت ورسوائی کاسامناکرناپڑتاہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت کااشیائےخوردونوش کی قیمتوں کومتعین کرناکیساہے؟کیایہ بیع المُکرَہ میں داخل ہے؟نیزدُکانداروں کامتعین قیمت سے زیادہ میں بیچنا کیسا ہے؟جبکہ ذلت ورسوائی میں پڑنے کاغالب اندیشہ ہو؟اگردُکاندارمتعین قیمت سے زیادہ پرفروخت کرتے ہیں،توکیایہ عقد صحیح اوراضافہ جائزو حلال ہوگا یا حرام ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اسلام نے تجارت میں نفع کی کوئی خاص مقدارلازم نہیں کی کہ اتناجائزہے اوراس سے زائد ناجائز،بلکہ اسے بائع ومشتری(یعنی فروخت کرنے والےاورخریدار) کی باہمی رضامندی پرچھوڑاہے کہ مالک اپنی چیزجھوٹ اور دھوکادیئے بغیرجتنے  کی چاہے فروخت  کرسکتاہے اورخریدارپرکوئی جبرنہیں ،بلکہ اختیارہے کہ اگرخریدناچاہے خریدلے،ورنہ چھوڑدےاوررہامسئلہ حکومت کاقیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے دُکانداروں کو متعین قیمت پر بیچنے پر مجبورکرنے کا ، تواس کی دو صورتیں ہیں:

     (1)بعض اوقات قیمتوں کا بڑھ جانا دُکاندار کی بدنیتی یاذخیرہ اندوزی کی بنا پر نہیں ہوتا، دُکاندارتو بے قصورومجبور ہوتاہے،لیکن خارجی عوامل کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ مثلا منڈی میں ہی تاجروں نے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں خوب اضافہ کیاہوتاہے اوردُکانداروہیں سے مہنگی خریدکرلاتے ہیں،پھروہ اپناکچھ نفع رکھ کرفروخت کرناچاہتے ہیں، لیکن حاکم کی طرف سے مقررکردہ بھاؤکی بناپراسے چیزقیمت ِ خریدسے بھی سستی دینی پڑتی ہے، تویوں تاجرکوبجائے نفع کے نقصان اٹھاناپڑتاہے ،تواس طرح کی صورت ِ حال میں حاکم کاان کے لیے بھاؤمقررکرناظلم ہے۔نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں اشیاء کی قیمتیں بڑھیں، توصحابہ کرام نے عرض کی،یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قیمتیں مقرر فرمادیں،تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیمتیں متعین کرنے والا،تنگی کشادگی کرنے والا،روزی دینے والااللہ عزوجل ہے اور میں امید کرتاہوں کہ خدا سے اس حالت میں ملوں کہ کوئی شخص خون یامال کے معاملے میں مجھ سے کسی حق کامطالبہ نہ کرے۔

    لہذاایسی صورت میں حاکم کوچاہیے کہ دُکاندارتاجروں پرپابندی سے پہلے منڈی کے تاجروں پر اشیاء کابھاؤمقررکرے تاکہ دُکانداروں کوپیچھے منڈی سے ہی چیزمناسب قیمت پرملے اوروہ مناسب نفع رکھ کرآگے فروخت کریں اوراس میں کسی کابھی نقصان نہ ہو۔

     (2)البتہ جب دُکانداروں کی بدنیتی اوربہت زیادہ نفع خوری سے لوگ مشقت میں پڑجائیں ، جیسا کہ ہمارے ملک میں اکثر یہی دیکھنے میں آتا ہے،توشریعت نےحکومتِ وقت کواختیاردیاہے کہ وہ منصفانہ وعادلانہ منافع کامعیارمقررکرکے غلط منافع خوری کاخاتمہ کرے۔جیسے ہمارے ہاں ماہِ رمضان کی آمدہوتے ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کے بجائے مزیدہوش ربااضافہ ہوجاتاہے ،جو عوام کے حق میں کُھلاضَرَر (نقصان)ہے، ایسی صورت میں اسلام نے حکومت ِ وقت کوعوام سے ضرر(نقصان)کودورکرنے کے لیے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کومنصفانہ منافع رکھ کر متعین  کرنے کی اجازت دی ہے ،جس سے عوام کی اشیائے ضرورت تک بآسانی رسائی ہوجاتی ہے ،لہذا ان دُکانداروں سے حکومتی نرخ پر خریدنا ،جائز ہے اوریہ بیع صحیح ونافذہے۔

    یہاں پر کسی کویہ شبہ لاحق ہو سکتاہے کہ حکومت کا دُکانداروں کو مجبورکرنا،بیع مکرہ (مجبور کیے گئے شخص کی بیع)ہے،جوشرعا ناجائزوگناہ ہے،تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ بیع مکرہ (مجبورکیے گئے شخص کی بیع)نہیں ہے، کیونکہ بیع مکرہ کسی کی چیز کو جبراً فروخت کردینے کو کہتے ہیں،جبکہ حکومت دُکاندارکواشیاء بیچنے پرمجبورنہیں کررہی، بلکہ متعین قیمت سے زیادہ میں نہ بیچنے پرمجبورکررہی ہے، اگردُکانداراپنامال نہ بیچناچاہے، توحکومت کی طرف سے کوئی زبردستی نہیں ہوتی،لہذایہ بیع مکرہ نہیں ہے کہ اسے ممنوع قراردیاجائے۔

    اورصورتِ مسئولہ میں دُکاندارکاحکومت کی مقررکردہ قیمت سے زیادہ قیمت پراشیاء فروخت کرنامکروہ تحریمی،ناجائزوگناہ ہے،کیونکہ زیادہ قیمت پربیچناقانوناًجرم ہے،جس کے مرتکب کوسزااورشرمندگی کاسامناکرناپڑتاہے اورقانون توڑکر خودکوذلت ورسوائی پرپیش کرناہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ملک کاایساقانون جوخلافِ شرع نہ ہواوراس کاارتکاب قانوناًجرم ہوجس بناپرسزااورذلت کاسامناکرناپڑتاہو،توایسے قانون کی خلاف ورزی کرناشرعابھی جائزنہیں ہے،کیونکہ یہ خود کوذلت ورسوائی پرپیش کرناہے اورانسان کاخودکوذلت پرپیش کرنابھی ناجائزوگناہ ہے،لہٰذا یہ قانونی اور شرعی دونوں اعتبار سے جائزنہیں،ہاں اگردُکاندارنے گاہک کو دھوکا دیئے بغیر زیادہ قیمت پرچیزفروخت کرہی دی،تویہ بیع فاسد نہیں،بلکہ صحیح ونافذہے اور زیادہ قیمت فروخت کرنے والے کے لیے حلال ہے،کیونکہ کراہت نفسِ بیع یاشرائط صحتِ بیع میں فسادکی وجہ سے نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک امرِخارج کی وجہ سے ہے اورجب فسادنفسِ بیع یاشرائطِ صحتِ بیع میں نہ ہو،بلکہ امرِخارج کی وجہ سے ہو،توبیع باوجودمکروہ تحریمی ہونے کے صحیح ونافذ ہوتی ہے ۔

    چنانچہ تجارت میں باہمی رضاسے نفع حاصل کرنے کےجائزہونے کے بارے  میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو ۔‘‘

  (القرآن،پارہ 05، سورۃ النساء، آیت 29)

    مذکورہ بالاآیت کے تحت شیخ القرآن مفتی محمد قاسم عطاری سلمہ الباری لکھتے ہیں:”یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو ،وہ تمہارے لیے حلال ہے،باہمی رضا مندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی ر ضا مندی نہ ہو، درست نہیں ۔ جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدناکہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا۔“

(تفسیر صراط الجنان،جلد02،صفحہ 183،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

      رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اذا اختلف النوعان فبیعوا کیف شئتم‘‘ ترجمہ: جب دو چیزیں مختلف قسم کی ہوں تو جیسے چاہو بیچو۔

  (نصب الرایۃ لاحادیث الھدایۃ، جلد04، صفحہ04،مطبوعہ المکتبۃ المکیہ )

    بے قصورومجبوردکانداروں پر قیمت مقرر نہ کرنے کے بارے میں سنن ابی داؤد میں ہے:”عن أنس، قال الناس يا رسول اللہ، غلا السعر فسعر لنا، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن اللہ هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى اللہ وليس أحد منكم يطالبني بمظلمة في دم ولا مال“ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کی:یارسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں،آپ انہیں مقرر فرمادیں،تورسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالیٰ ہی  قیمت مقرر کرنے والا،تنگی کشادگی کرنے والا،روزی دینے والاہےاورمیں امید کرتاہوں کہ خدا سے اس حالت میں ملوں کہ کوئی شخص خون یامال کے معاملے میں مجھ سے کسی حق کا مطالبہ نہ کرے۔

(سنن ابی داؤد،کتاب البیوع،باب فی التسعیر،جلد03،صفحہ272،مطبوعہ مکتبہ عصریہ،بیروت)

    دُکانداروں کی بدنیتی،ذخیرہ اندوزی اورنفع خوری سے لوگوں کو ضرر(نقصان)ہوتو،لوگوں کونقصان سے بچانے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’لا ضرر ولا ضرار،من ضار ضرہ اللہ،ومن شاق شق اللہ علیہ‘‘ترجمہ:بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’نہ ضررلونہ ضرردو،جوضرردے اللہ عزوجل اس کوضرردے اورجومشقت کرے اللہ عزوجل اس پر مشقت ڈالے ۔

(سنن الدارقطنی،جلد4،صفحہ51،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

    نقصان کوختم کرنے کے بارے میں الاشباہ  والنظائر  میں ہے:’’الضرر یزال   اصلھاقولہ    علیہ    الصلاۃ والسلام لاضررولاضرار‘‘ترجمہ:ضرر (نقصان)کوختم کیاجائے گا،اس قاعدے کی اصل حضور علیہ الصلاۃ والسلام کافرمان ہے:نہ ضررلواورنہ ضرردو۔

(الاشباہ والنظائر،جلد01،صفحہ121،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    اسی میں ہے:’’یتحمل الضررالخاص لاجل دفع ضررالعام‘‘ترجمہ:ضررخاص کوبرداشت کیاجائے گاضررعام کودورکرنے کی وجہ سے۔

 (الاشباہ والنظائر،جلد01،صفحہ74،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    حکومت کااشیائے خوردونوش کی قیمت متعین کرنے کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے:”(ويكره التسعير) لقوله عليه الصلاة والسلام لا تسعروا فإن اللہ هو المسعر القابض الباسط الرازق ولأن الثمن حق العاقد فلا ينبغي له أن يتعرض لحقه (إلا إذا تعدى أرباب الطعام في القيمة تعديا فاحشا) كالضعف وعجز الحاكم عن صيانة حقوقهم إلا بالتسعير (فلا بأس) حينئذ (به) أي بالتسعير (بمشورة أهل الخبرة) أي أهل الرأي والبصارة لأن فيه صيانة حقوق المسلمين عن الضیاع“ترجمہ:اور اشیاء کا بھاؤ مقرر کرنا مکروہ ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اشیاء کا بھاؤ مقرر نہ کرو،کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی  قیمت مقرر کرنے والا،تنگی کشادگی کرنے والا،روزی دینے والاہےاورقیمت طے کرنا بیچنے والے کا حق ہے،پس کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس کے حق کے درپے ہو،مگرجب اشیاء کے مالکان قیمتوں میں بے حد اضافہ کر دیں ،جیسے دُگنا نفع لینااورحاکم قیمت مقرر کیے بغیر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے سے عاجز ہوتوحاکم کا اہل ِ بصیرت کے مشورے کے ساتھ قیمت مقرر کردینے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ اس میں مسلمانوں کے حقوق ضائع ہونے سے بچانا ہے۔

 (مجمع الانھر،کتاب الکراھیۃ،فصل فی المتفرقات،جلد02،صفحہ548، داراحیاء التراث العربی،بیروت)

    محیط برہانی ،تبیین الحقائق،بحرالرائق،دررالحکام میں ہے:واللفظ للاول’’فإن کان أرباب الطعام یتحکمون ویتعدون عن القیمۃ تعدیا  فاحشا، وعجز القاضی عن صیانۃ حقوق   المسلمین    إلا  بالتسعیر    فحینئذ    لا بأس بہ     بمشورۃ     من   أھل الرأی   و    البصیرۃ‘‘ترجمہ:اگرمالکان خودفیصلہ کرکے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ کردیں اورقاضی بھاؤ مقرر کیے بغیر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے سے عاجزآجائے ،توقاضی کاماہرین کے مشورہ کے ساتھ اشیاء کی قیمتیں متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔

(المحیط البرھانی،کتاب البیع،الفصل الخامس والعشرون،جلد01،صفحہ146، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    ہدایہ میں ہے:”لاینبغی للامام ان تعرض لحقہ الااذا تعلق بہ دفع ضرر العامۃ“ترجمہ:حاکم کے لیے لوگوں پر چیزیں فروخت کرنے کابھاؤ مقرر کرکے ان کے حق کے درپے ہونا مناسب نہیں،مگرجب اشیاء کی قیمت متعین کرنے میں عوام سے ضرر(نقصان)دور کرنا ہو، تو جائزہے۔

(الھدایہ،کتاب الکراھیۃ،فصل فی البیع،جلد04،صفحہ474،مطبوعہ لاھور)

    موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں ہے:’’التسعیر من الحاکم، وھذا لہ حکمان: تسعیر محرم:وھو الذی یتضمن ظلم الناس،و إکراھھم بغیر حق، ومنعھم مما أباح اللہ لھم وھذا التسعیر محرم۔تسعیرجائز:وھو الذی لا یظلم فیہ البائع، ولا یرھق فیہ المشتری،یمتنع أصحاب السلع من بیعھا إلا بزیادۃ فاحشۃ، مع حاجۃ الناس إلیھا،  ویتضرر الناس فھنا یجب علی الحاکم التسعیر بالمثل، صیانۃ لحقوق الناس‘‘ترجمہ:حاکم کی طرف سے بھاؤمقررکرنے کے دوحکم ہیں:ایک حرام:وہ یہ کہ بھاؤمقررکرنالوگوں پر ظلم کوشامل ہواورناحق طورپرلوگوں کومقررکردہ قیمت کے ساتھ بیچنے پرمجبورکرناہواوراللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جونفع مباح کیااسے روکتا ہو اور دوسراحکم جائزکاہے:اوروہ یہ کہ لوگ اپناسامان بہت مہنگاکرکے فروخت کریں اورعوام اس کی محتاج بھی ہواورلوگوں کوضررلاحق ہو،تووہاں حاکم پرمناسب قیمت کے ساتھ بھاؤمقررکرناواجب ہے ،لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے۔

(موسوعہ الفقہ الاسلامی،جلد03،صفحہ436،مطبوعہ دارالسلاسل،الکویت)

    صورتِ مسئولہ میں بیع مُکرہ(جبراً بیچنے کے) نہ ہونے کے بارے میں تبیین الحقائق ،فتح القدیراورردالمحتار میں ہے:واللفظ للآخر’’ ومن باع منھم بما قدرہ الإمام صح لأنہ غیر مکرہ علی البیع،لأن الامام لم یأمرہ بالبیع،وانماأمرہ أن لایزیدالثمن علی کذا‘‘ترجمہ:اوربیچنے والوں میں سے جس نے حاکم کی متعین کردہ قیمت کے مطابق بیچاتوبیع صحیح ہے ،کیونکہ اسے بیع پرمجبورنہیں کیاگیا،اس لیے کہ امام نے اسے فروخت کرنے کاحکم نہیں دیا،بلکہ اس نے متعین قیمت سے زیادہ نہ بیچنے کاحکم دیاہے۔

(ردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،جلد09،صفحہ660،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’تاجروں نے اگرچیزوں کانرخ بہت زیادہ کردیاہے اوربغیرنرخ مقررکیے کام چلتانظرنہ آتاہو،تواہل الرائے سے مشورہ لے کرقاضی نرخ مقررکرسکتاہے اورمقررشدہ نرخ کے موافق جوبیع ہوئی یہ بیع جائزہے،یہ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ بیع مکرہ ہے، کیونکہ یہاں بیع پراکراہ نہیں،قاضی نے اسے بیچنے پرمجبورنہیں کیا،اسے اختیارہے کہ اپنی چیزبیچے یانہ بیچے،صرف یہ کیاہے کہ اگربیچے توجونرخ مقررہواہے،اس سے گراں نہ بیچے۔‘‘

(بھارشریعت،جلد03،صفحہ483،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    قانونی پابندی کے باوجود زیادہ قیمت پرفروخت کرناخودکوذلت میں ڈالنے کی وجہ سے ناجائز ہے اورخودکوذلت میں ڈالنے کے ناجائزہونے کے بارے میں جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ،مشکوۃ المصابیح میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی للمومن ان یذل نفسہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی میں مبتلاکرے ۔

                                            (جامع الترمذی،ابواب الفتن،باب ماجاء فی النھی عن سب الریاح،جلد02،صفحہ498،مطبوعہ لاھور)

    امام محمودبن احمدعینی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’اذلال النفس حرام‘‘ترجمہ:نفس کوذلت پرپیش کرناحرام ہے۔

(البنایہ شرح الھدایہ،کتاب النکاح،باب فی الاولیاء والاکفاء،جلد04،صفحہ619،مطبوعہ کوئٹہ)

    زیادہ قیمت پربیچناخلافِ قانون ہے اورخلافِ قانون امرکاارتکاب کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں:’’ایسے امر کاارتکا ب جو قانوناً ناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے، شرعابھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لیے جر م قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لیے پیش کرناشرعابھی روانہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد20،صفحہ192،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

زیادہ قیمت پربیچنے سے بیع کے صحیح ونافذہونے کے بارے میں علامہ محمدامین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:’’لوباعہ بأکثریحل وینفذ البیع‘‘ترجمہ:اوربیچنے والے نے حاکم کی متعین کردہ قیمت سے زیادہ قیمت پرچیزفروخت کی تویہ حلال ہے اوربیع نافذہوجائے گی۔

 (ردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،جلد09،صفحہ660،مطبوعہ کوئٹہ)

    بیع کے فاسدوباطل نہ ہونے کے بارے میں ہدایہ اورفتح القدیرمیں ہے:’’والبیع عندأذان الجمعۃ یکرہ ولایفسدبہ البیع لأن الفسادفی معنی خارج زائدلافی صلب العقدولافی شرائط الصحۃ‘‘ترجمہ:اورجمعہ کی اذان کے وقت خریدوفروخت مکروہ ہے، لیکن اس سے بیع فاسدنہیں ہوتی، کیونکہ فسادامرخارج زائدمیں ہے، نہ کہ نفسِ عقد اورشرائطِ صحت میں۔

(الھدایہ مع فتح القدیر،کتاب الصلوۃ،جلد06،صفحہ438،مطبوعہ کوئٹہ)

    بیع کے مکروہ تحریمی ہونے کے باوجودصحیح واقع ہونے کے بارے میں علامہ احمدبن محمدطحطاوی علیہ رحمۃ اللہ الوالی لکھتے ہیں:’’فیکرہ تحریمامن الطرفین وصح اطلاق الحرام علیہ ویقع العقدصحیحاعندناوھوقول الجمھورحتی یجب الثمن ویثبت الملک قبل القبض‘‘ ترجمہ:بیع  خریدنے اورفروخت کرنے والے دونوں  کی طرف سے  مکروہ تحریمی  ہے اور اس پرحرام کا اطلاق کرناصحیح ہے اورعقدہمارے نزدیک صحیح ہے اوریہی جمہورعلماء کامؤقف ہے یہاں تک کہ خریدنے والے پرثمن دیناواجب ہوجائیں گے اورقبضہ سے پہلے اس کی ملک ثابت ہوجائے گی۔

                                                                                                      (طحطاوی علی المراقی،کتاب الصلوۃ،باب الجمعۃ، صفحہ517،مطبوعہ کوئٹہ)

    درمختاراورردالمحتارمیں ہے:’’وکرہ تحریمامع صحۃ البیع عند الاذان الاول وفی رد:أنہ لایجب فسخہ ویملک المبیع قبل القبض ویجب الثمن‘‘ترجمہ:پہلی اذان کے وقت بیع صحیح ہونے کے باوجود مکروہ تحریمی ہے اورردالمحتارمیں ہے کہ اسے فسخ کرناواجب نہیں اورخریدارخریدی گئی چیزکاقبضے سے پہلے مالک ہوجائے گااوراس پرثمن دینابھی واجب ہوجائے گا۔

(درمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلوۃ،مطلب:احکام نقصان المبیع فاسدا،جلد07،صفحہ309،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’بیع مکروہ بھی شرعاممنوع ہے اوراس کاکرنے والاگنہگارہے،مگر وجہ ممانعت نہ نفسِ عقدمیں ہے، نہ شرائط ِصحتِ بیع میں ۔‘‘

(بھارشریعت ،جلد02،صفحہ722،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم