ایکسپائر ادویات بیچنے کا شرعی حکم ؟ |
مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ |
مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
تاریخ اجراء:30رجب المرجب1442ھ15مارچ2021ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میڈیکل فارمیسی میں بعض اوقات ادویات ایکسپائر ہوجاتی ہیں،جس کا میڈیکل ا سٹوروالے کو علم ہوتا ہے،توکیا جان بوجھ کرگاہک کو ایکسپائر ادویات فروخت کرسکتے ہیں یانہیں؟اور جب گاہک کو ادویات کے ایکسپائر ہونے کا علم ہوتو اسے شرعا واپس کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
میڈیکل اسٹورمیں
جو ادویات ایکسپائر(expire) یعنی زائدالمیعاد ہوجائیں،توان
کے ایکسپائر ہونے کاعلم ہوتے ہوئے ،انہیں مریضوں کے لیے
بغیربتائے فروخت کرنا شرعاناجائز،حرام وگناہ ہے،کیونکہ ایکسپائرادویات
عموماًمضر(نقصان دہ)ہوتی ہیں،بلکہ بعض اوقات تو جان لیوابھی
ثابت ہوجاتی ہیں اورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی کوضرر(نقصان)پہنچانے
سے منع فرمایاہے۔
اورایکسپائرادویات
فروخت کرناقانوناً بھی جرم ہےکہ جس کے مرتکب کوسزااورذلت کاسامناکرناپڑتاہےاورفقہائے
کرام لکھتے ہیں کہ مُلک کا ایساقانون جوخلافِ شرع نہ ہواوراس کاارتکاب
قانوناًجرم ہو،جس بناپرسزااورذلت کاسامناکرناپڑتاہو،توایسے قانون کی
خلاف ورزی کرناشرعاًبھی جائزنہیں ہے،کیونکہ یہ خود
کوذلت ورسوائی پرپیش کرناہے اورانسان کاخودکوذلت پرپیش کرنابھی
ناجائزوگناہ ہے،لہٰذازائدالمیعاد یعنی ایکسپائرادویات
فروخت کرنے کی قانونی اور شرعی دونوں اعتبارسےاجازت نہیں۔
ایکسپائرادویات
کو فروخت کرنے کےناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ادویات
کا ایکسپائرہوجاناایک عیب ہے،کیونکہ عیب
ہر اس چیز کوکہتے ہیں کہ جس کے باعث تاجروں کی نظر میں شے
کی قیمت کم ہوجائےاورجب ادویات ایکسپائر ہوتی ہیں
،توان کی قیمت بہت کم ،بلکہ نہ ہونے کے برابرہی ہوتی ہے
اورعیب دارچیز کاعیب بتائے بغیر آگے فروخت کرناشرعاًناجائزوگناہ
اور حرام ہے،لہٰذامیڈیکل اسٹوروالے کاجان بوجھ کرایکسپائر
ادویات گاہک (Customer)کو بتائے
بغیر فروخت کرنا،ناجائزوگناہ ہے۔
نیزیہ کہ بتائےبغیرایکسپائر
ادویات فروخت کرنے میں دھوکا دہی بھی ہے،کیونکہ گاہک
مرض سےحصولِ شِفا کے لیے ادویات کو (useable)قابلِ
استعمال ہی سمجھ کرخریدتا ہے ،جبکہ دُکاندار اَدویات کے ایکسپائر
ہونے کوبتائے بغیرفروخت کردیتاہے،تویہ دھوکاہے اوردھوکادینا
حرام ہے، خواہ کسی کافر کو ہی دیا جائے۔
گاہک(Customer)کووقتِ
خریداری ادویات کے ایکسپائر ہونے کا علم نہ تھا،بعدمیں
معلوم ہوا،توشریعت نے اسے واپس کرنے کا اختیار دیا ہے ،کیونکہ
ادویات کاایکسپائر ہونا،ادویات کاعیب دار ہونا ہے اورجب
کوئی شخص بغیر علم کے عیب دارچیزخریدلے تو شریعت
اسے واپس کرنے کاحق دیتی ہے۔
نیزیہ کہ ایکسپائر
ادویات کی قیمت انتہائی کم ہوتی ہے،بلکہ نہ ہونے کے
برابرہوتی ہےاورمالک کا اسے فروخت کرکے صحیح دوا والی قیمت وصول کرناغبن فاحش ہے اورغبن فاحش سے مرادیہ ہے کہ کسی
چیزکی ایسی قیمت
سے خریدوفروخت کرناجوقیمت لگانے والوں کے اندازے سے باہر ہو، مثلا:ایک
چیزدس روپے میں خریدی،توکوئی تاجراس کی قیمت
پانچ اورکوئی چار اورکوئی چھ روپے بتاتاہےاورجو چیزغبن فاحش کے
ساتھ دھوکا دے کرفروخت کی جائے ،توخریدارکواسے واپس کرنے کااختیار
ہوتا ہے،لہذاجیسےسو روپے والی صحیح دوا جب ایکسپائر ہوجائے
توانتہائی کم قیمت کی رہ جانے کی بنا پر بغیر بتائے
دھوکا دے کرسوروپے میں ہی فروخت کردینا ، قیمت کا اندازہ
لگانے والوں کے اندازے سے باہر ہونے کی وجہ سے خریدارواپس کر سکتاہے۔
کسی انسان کی جان
ضائع کرنے کے حرام ہونے کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے:﴿مَنۡ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیۡرِ
نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الۡاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’جس نے کسی
جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر
کسی شخص کو قتل کیا تو گویااس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔‘‘ (پارہ 6،سورۃ المائدہ،آیت32)
مذکورہ بالاآیت کے تحت
تفسیر نعیمی میں ہے:” ’’مَن‘‘ سے مراد ہر انسان ہے،مؤمن
ہو(یا) کافر، کیونکہ معاملات تمام انسانوں پر یکساں ہیں۔قتل
سے مرادمار ڈالناہے، خواہ دھاردار آلہ سے ہو یازہر خورانی سے یاگلا
گھونٹ کر یاکسی اورذریعہ سے،بلکہ قتل کرنا،قتل کرانا،قاتل ظالم
کی قتل پر مدد کرناحتی کہ بعد قتل اس ظالم کو صاف بچا لینا بھی
سخت جُرم ہے کہ یہ بھی قتل ِنفس کے متعلقات سے ہے۔“ (تفسیرنعیمی،جلد6،صفحہ374،375، مکتبہ اسلامیہ،لاھور)
تفسیرصراط الجنان میں
ہے:”یہ آیتِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی
ہے کہ اسلام کس قدرامن وسلامتی کامذہب ہےاوراسلام کی نظرمیں انسانی
جان کی کس قدراہمیت ہے۔اس سے اُن لوگوں کو عبرت حاصل کرنی
چاہیے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس ِ پُشت ڈال کر دامنِ اسلام
پر قتل وغارت گری کے حامی ہونے کا بدنمادھبا لگاتے ہیں۔“ (صراط الجنان،جلد2،صفحہ420،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
لوگوں سے ضررکودورکرنے کے بارے
میں نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لا ضرر ولا ضرار،من ضار ضرہ اللہ،ومن شاق
شق اللہ علیہ‘‘ ترجمہ:نہ ضررلو ،نہ ضرردو،جوضرردے اللہ عزوجل اس کوضرردے
اورجومشقت کرے، اللہ عزوجل اس پر مشقت ڈالے ۔ (سنن دارقطنی،جلد4،صفحہ51، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
الاشباہ والنظائر میں
ہے:’’الضرر یزال،اصلھا قولہ
علیہ الصلاۃ و السلام لاضرر و لاضرار‘‘ترجمہ:ضرر کوختم کیاجائے گا،اس قاعدے
کی اصل حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کافرمان ہے:’’نہ ضررلواورنہ
ضرردو۔‘‘ (الاشباہ والنظائر،جلد1،صفحہ121، دارالکتب العلمیہ،بیروت)
خودکوذلت میں ڈالنے کے
ناجائزہونے کے بارے میں جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ اورمشکوٰۃ
المصابیح میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم لا ینبغی للمومن ان یذل نفسہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن
کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی میں مبتلاکرے ۔ (جامع الترمذی،ابواب الفتن،جلد2،صفحہ498،مطبوعہ لاھور)
امام محمودبن احمدعینی
علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:’’اذلال النفس حرام‘‘ترجمہ:نفس کوذلت پرپیش
کرناحرام ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ،کتاب النکاح ،جلد4،صفحہ619،مطبوعہ کوئٹہ)
خلافِ قانون امرکاارتکاب کرنے
کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:’’ایسے امر کاارتکا
ب جو قانوناً،ناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاًبھی ناجائز ہوگا
کہ ایسی بات کے لئے جر م قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور
ذلت کے لئے پیش کرناشرعاًبھی روانہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد20،صفحہ192، رضافاؤنڈیشن،لاھور)
بغیر بتائے عیب
دارچیزفروخت کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں
ہے:”عن عقبۃ بن عامر قال
سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول : المسلم
اخوالمسلم ولایحل لمسلم باع من اخیہ بیعا فیہ عیب
الابینہ لہ “ترجمہ:حضرت
عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے مروی ہے کہ میں
نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان
،مسلمان کا بھائی ہے اورجب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ ایسی
چیز بیچے جس میں عیب ہو توجب تک وہ عیب بیان
نہ کردے،تو اسے بیچنا حلال نہیں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،جلد1،صفحہ162،مطبوعہ کراچی)
المعجم الکبیر میں
ہے:”عن واثلۃ بن الاسقع قال
سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول من باع عیبا
لم یبینہ لم یزل فی مقت اللہ او قال لم تزل الملائکۃ
تلعنہ“ترجمہ:حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ میں
نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص
عیب دار چیز ، بغیر عیب بتائے بیچے، وہ ہمیشہ
اللہ کے غضب میں رہتا ہے،یافرمایا:اس پر ہمیشہ فرشتے لعنت
بھیجتے ہیں۔ (المعجم الکبیرللطبرانی،جلد22،صفحہ65،مطبوعہ قاھرہ)
بحرالرائق میں ہے:”کتمان عیب السلعۃ حرام،وفی
البزازیہ وفی الفتاوی:اذا باع سلعۃ معیبۃ علیہ
البیان وان لم یبین قال بعض مشائخنا:یفسق وترد شھادتہ،قال
الصدر:ولاناخذبہ۔وقیدہ فی الخلاصۃ بان یعلم بہ“ترجمہ:سامان کے عیب کو
چھپانا حرام ہے اوربزازیہ اورفتاوی میں ہے:جب کسی نے عیب
دارچیز کو بیچا،تو اس پر عیب کو بیان کرنا واجب ہےاوراگر عیب کو بیان نہیں
کیا،توہمارے بعض مشائخ فرماتےہیں:ایسے شخص کو فاسق قرار دیاجائےگااوراس
کی شہادت کورد کیاجائےگا،صدرالشریعہ نےفرمایا:اورہم اس قول
کو نہیں لیتےاورخلاصہ میں یہ قید بڑھائی گئی
ہےکہ (یہ حکم تب ہوگا جب کہ) وہ(بیچنےوالا)اس
عیب کوجانتابھی ہو۔ (البحرالرائق،باب خیار العیب،جلد6،صفحہ58،مطبوعہ کوئٹہ)
مذکورہ بالاعبارت کے متعلق علامہ
شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:” قال في النهر: أي لانأخذ بكونه يفسق بمجرد
هذا، لأنه صغيرة. قلت: وفيه نظر، لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون
صغيرة، بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود
الشهادة، وإن كان كبيرة“نہرالفائق میں ہے کہ (صدرالشریعہ کے قول ’’لاناخذ ‘‘ کا مطلب یہ ہے )کہ ہم
بغیر بتائے عیب دارسودابیچنے
والے کو محض اس وجہ سے فاسق نہیں کہیں گے ،کیونکہ بغیربتائے
عیب دارچیز بیچناگناہ صغیرہ ہے۔ علامہ شامی
علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ صاحب ِنہرکااسے گناہ صغیرہ کہنامحلِ
نظر ہے،کیونکہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانادھوکاہے ،پس یہ
صغیرہ گناہ کیسے ہوسکتاہے،بلکہ صدرالشریعہ کے کلام کی ظاہری
علت یہ ہے کہ بلااعلان محض ایک دفعہ کرنے سے ہم اسے مردودالشہادۃ
نہیں کہیں گے ،اگرچہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔(حقیقت
یہ ہے کہ کسی کو دھوکے سے عیب دار مال بیچ کر رقم لینا
صاف صاف دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے میں داخل ہے اور دوسرے کا
مال باطل طریقے سے کھانے کو قرآن کی نصِ قطعی نے واضح طور
پر حرام قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے فعل کی وجہ سے فاسق نہ
ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، البتہ چونکہ تاجر عیب دار شے کو چھپا کر ہی بیچتا
ہے اور یہ اگرچہ کبیرہ گناہ ہے لیکن کبیرہ گناہ بھی
جب تک اعلانیہ نہ ہو تب تک فاسق معلن قرار نہیں دیا جاتا ہے اور
جب تک معلن نہیں ہے،تو قاضی اس کے فاسق و مردود الشہادۃ ہونے کا
حکم کیسے دے سکتا ہے؟ ہاں جب بار بار کرے گا تو خود ہی لوگوں میں
مشہور ہوگا اور اب قاضی کا اس کے مردود الشہادۃ ہونے کا فیصلہ
دینا بھی ممکن و درست ہوگا۔ ) (ردالمحتار،کتاب البیوع ،جلد7،صفحہ229،مطبوعہ کوئٹہ)
بہارشریعت میں ہے:”مبیع
میں عیب ہو تو اس کا ظاہر کردینا بائع(بیچنے والے)پر واجب
ہے،چھپانا حرام وگناہ ِکبیرہ ہے۔یوہیں ثمن کا عیب
مشتری پر ظاہر کر دینا واجب ہے۔“ (بھارشریعت،جلد02،صفحہ673،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
عیب کی تعریف
کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ كل ما يوجب نقصانا في الثمن في عادة التجار فهو عيب
‘‘ترجمہ: ہر وہ چیز جو تاجروں
کے ہاں ثمن (ریٹ)میں کمی کاباعث بنے،وہ عیب ہے ۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب
البیوع،جلد3،صفحہ72،مطبوعہ کراچی)
دھوکادینے کی ممانعت
کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:’’ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم قال من حمل علینا السلاح فلیس منا ومن غشنا فلیس منا‘‘ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس
نے ہم پر اسلحہ اٹھایا،وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں
دھوکادیا،وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ (الصحیح لمسلم ،کتاب الایمان،باب
من غشنافلیس منا،جلد1، صفحہ70،لاھور)
عقدِ بیع ہوجانے کے بعدخریدارکوخیارِ
عیب حاصل ہونے کے بارے میں ہدایہ،بنایہ،فتح اور ردالمحتار
میں ہے:واللفظ للاول”اذاحصل الایجاب
والقبول لزم البیع ولاخیار
لواحد منھماالامن عیب اوعدم رؤیة“ترجمہ:جب ایجاب وقبول حاصل ہوجائے،
توبیع لازم ہوجاتی ہےاوران میں سے کسی کے لیے اختیارنہیں
رہتاسوائے خیارِعیب اورخیارِرویت کے۔ (الھدایہ،جلد2،صفحہ20،مطبوعہ لاھور)
عقد ِبیع میں خیارِ
عیب ذکرکیےبغیربھی خیارِعیب حاصل ہونے کے بارے
میں فتاوی عالمگیری میں ہے:”وخیارالعیب یثبت من غیر شرط….واذااشتری
شیأ لم یعلم بالعیب وقت الشراء ولاعلمہ قبلہ والعیب یسیراوفاحش
فلہ الخیار“ترجمہ:خیارِ
عیب بغیرشرط کے بھی حاصل ہوجاتاہےاورجب کسی شخص نے ایسی شے خریدی کہ اس میں خریدتے وقت عیب معلوم نہ ہواورنہ
ہی خریداری سے پہلے عیب معلوم ہواورعیب تھوڑاہویازیادہ،تو
خریدارکوچیزواپس کرنے کاحق حاصل ہوتاہے۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب
البیوع،الباب الثامن،جلد3،صفحہ66،مطبوعہ کوئٹہ)
غبنِ فاحش کے ساتھ دھوکے سے
خریدی گئی چیزواپس کرنے کے بارے میں تحفۃ الفقہاء
میں ہے:”واصحابنا یفتون فی
المغبون انہ لایرد ولکن ھذا فی مغبون لم یغر اما فی مغبون
غر فیکون لہ حق الرد“ترجمہ:اورہمارے اصحاب غبن سے خریدی گئی چیزکے بارے میں
فتوی دیتے ہیں کہ اسے واپس نہیں کیا جائے گا،لیکن
یہ فتوی اس غبن سے خریدی گئی چیزکے بارے میں
ہے کہ جس میں دھوکا نہ ہو،(یعنی بتا کر بیچا ہو)بہرحال جوچیزغبن
کے ساتھ دھوکا دے کر فروخت کی گئی توخریدار کو چیز واپس
کرنے کاحق حاصل ہے۔ (تحفۃ الفقھاء،کتاب البیوع،باب
الاقالۃ،جلد2،صفحہ108، دارالکتب العلمیہ،بیروت)
بہارشریعت میں ہے:”کوئی
چیز غبنِ فاحش کے ساتھ خریدی ہے،اس کی دوصورتیں ہیں:دھوکا
دیکر نقصان پہنچایا ہے یا نہیں ،اگرغبن فاحش کے ساتھ دھوکا
بھی ہے ،تو واپس کر سکتاہے ورنہ نہیں۔غبن فاحش کایہ مطلب
ہے کہ اتنا ٹوٹا(نقصان)ہے، جو مقومین(قیمت کا اندازہ لگانے والوں)کے
اندازہ سے باہرہو،مثلا: ایک چیز دس روپے میں خریدی،
کوئی اس کی قیمت پانچ بتاتا ہے، کوئی چھ ،کوئی سات
،تویہ غبنِ فاحش ہے۔ “ (بھارشریعت،جلد2،صفحہ691،
مکتبۃ المدینہ،کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
آب ِزمزم کی خریدوفروخت جائز ہے ،یا نہیں ؟
پلاٹ خرید کر والد کے نام کردیا مگرابھی تک قبضہ نہیں دیا اب پلاٹ کس کی ملک ہے؟
جانوروں کی شکل والے کھلونے خریدنا بیچنا کیسا؟
جس دکاندار نے جمعہ کی نماز نہ پڑھی ہو اس سے خریداری کرنا کیسا ؟
جرمانے کی شرط کے ساتھ قسطوں پر خریداری کرنا کیسا؟
جس سے ادھار خریدا اسے آدھا نفع دینا کیسا ہے؟
گاڑی ادھار بیچ کر واپس خریدنا جائز ہے یانہیں؟
اوور بلنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟