خریداری کا وکیل اپنا نفع نہیں رکھ سکتا

مجیب:   مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رَجَبُ المُرَجب 1442 ھ / مارچ 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی جاننے والے نے کوئی چیز منگوائی تو کیا لانے والا اپنا پرافٹ رکھ سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       جہاں کاروبار ہو وہاں تو یہ بات معہود (Understood) ہوتی ہے کہ اس کا کاروبار ہے تو یہ مارکیٹ سے چیز لائے گا اور اپنا نفع رکھ کر ہمیں بیچے گا۔ اس صورت میں بھی یہ ایک وعدہ ہوتا ہے پھر چیز آنے پر ریٹ طے ہو کر سودا ہوتا ہے۔ جب وعدہ کی صورت ہے تو دکاندار کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر سامنے والا چاہے تو نہ خریدے لہٰذا اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا ایسے موقع پر خریدو فروخت کے تمام تقاضے بھی پورے کرنا ضروری ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا بلکہ ویسے ہی جان پہچان کی وجہ سے کوئی شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں جگہ جارہے ہو تو میری بھی یہ چیز لے آنا تو یہاں دراصل چیز منگوانے والے نے اس کو اپنا وکیل بنایا ہے اور وکیل کی یہ ذمّہ داری ہے کہ جتنے کی چیز خرید کر لایا ہے اتنی قیمت ہی بتائے ، اس پر وہ اپنا نفع نہیں رکھ سکتا۔

       یہ دوسری صورت جو بیان ہوئی اس معاملہ میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے ، اس صورت میں اضافی رقم نہیں رکھی جا سکتی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم