پی ٹی اےسےغیر منظورشدہ موبائل دھوکے سے بیچ دیا تو واپسی کا حکم؟

مجیب:مولانا ابو بکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar:9775

تاریخ اجراء:08ذولقعدۃ الحرام 1441ھ/30جون2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ  زید نے بکر کو  50 ہزار کا موبائل بیچا، یہ ظاہر کر کے کہ یہ  PTA سے منظور شدہ ہے،جبکہ وہ منظور شدہ نہیں تھا۔ چند دن بعد وہ موبائل PTA کی طرف سے بند کر دیا گیا۔اب رجسٹرڈکروانے کے لیے 15 سے 20ہزار روپے لگیں گے، جو موبائل رجسٹرڈنہ ہو وہ  رجسٹرڈ شدہ کے مقابلے میں  تقریبا آدھی قیمت میں مل جاتا ہے۔ لہٰذا زید نے  غلط بیانی کر کے بکر سے تقریبا 20 ہزار روپے زیادہ لیے ہیں ، اب  معلوم یہ کرنا ہے کہ  اس بنیاد پر بکر زید کو موبائل واپس  کر سکتا ہے یا  نہیں  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       دریافت کی گئی صورت میں بکر ،زید کو موبائل واپس کر نے کا حق رکھتا ہے اور زید اس کے مطالبے پر انکار نہیں کر سکتا ،اس پر لازم ہے کہ اس کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے ،موبائل واپس لے لے اور مکمل پیسے واپس کر دے۔

       تفصیل  میں چند باتوں کا سمجھنا ضروری ہے:

       (1)موبائل کا PTA سے منظور شدہ(رجسٹرڈ) نہ ہونا عیب ہےکہ اس وجہ سےتاجروں کے نزدیک موبائل  کی قیمت کم ہو جاتی ہے اور جو چیز عرف ِتجارمیں قیمت کی کمی کا سبب ہو، اگر چہ اس کی وجہ سے نفسِ چیز یا اس کے منافع میں کمی واقع نہ ہو،تو وہ  شرعا ًعیب  کہلاتی ہے۔مثلاًمکان یا زمین خریدی لوگ اُسے منحوس کہتے ہیں، واپس کرسکتا ہے، اگر چہ اس قسم کے خیالات کا اعتبار نہیں اور مکان کے عین و منافع میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی،  مگر چونکہ  لوگوں کے منحوس سمجھنے کی وجہ سے اس  مکان کی قیمت کم ہو جائے گی اور آگے  بیچناچاہے گا ، تو اس کے لینے والے نہیں ملیں گے ، تو یہ ایک عیب ہے جس کی بنیاد پر مکان واپس کرنے کی فقہائے کرام اجازت دیتے ہیں ۔ جبکہ جو موبائل   PTAسے منظور شدہ نہ ہو، عرفِ تجار  میں اس کی قیمت میں کمی اور لوگوں کے اس کی خریداری کی طرف رغبت کم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ موبائل بند ہو گیاتو پھر اس سے منفعت  اٹھانا، ممکن ہی نہیں رہے گا،جب تک رجسٹرڈ نہ کروالے ،لہٰذا یہ  بدرجہ اولیٰ  بڑا عیب شمار ہوگا۔

       اس کی نظیر یہ مسئلہ بھی بن سکتا  ہے کہ جائیداد خریدی ، اس شرط کے ساتھ کہ اس پر  حکومت کا ٹیکس نہیں ہے، خریدنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس پر ٹیکس ہے،تو   یہ ایک عیب ہے جس کی بنیاد پر خریدار چیز واپس کر سکتا ہے ۔

       اگر  یہ کہا جائے  کہ  منظور شدہ ہونا ایک وصف مرغوب ہے، اس کا نہ ہونا عیب نہیں ،تو جوابا عرض ہے کہ یہ محض وصف نہیں ہے کہ وصف ختم ہونے سے چیز کے منافع معطل( ختم ) نہیں ہو جاتے، جبکہ یہاں پر  رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس  چیز کے منافع ہی معطل ہو جاتے ہیں،  جبکہ فقہا ئے کرام نے جو چیز منافع معطل ہونے کا سبب ہو ، اس کو بھی عیب شمار کیا ہے، جیسا کہ  غلام خریدا جو عورتوں کے پیچھے گھومنے کا عادی ہے تو فقہاء نے اسے عیب شمار کیا  ہے ،کیونکہ اس کی یہ عادت  اس کے منافع معطل ہونے کا سبب بنے گی، البتہ اگر یہی مان لیا جائے  کہ  رجسٹرڈ ہونا وصف مرغوب ہے تو بھی صورت مسئولہ میں موبائل واپس کرنے کا حق خریدار کو ملے گا کہ  وصف مرغوب کی شرط کے ساتھ چیز خریدی ہو اور بعد میں اس کے خلاف نکلے ،تو یہ بھی عیب کے ہی درجے میں ہے،  جس کی وجہ سے چیز واپس کرنے کا اسے اختیار دیا جاتا ہے۔

       (2)بالفرض PTA سے منظور شدہ ہونا نہ وصف مرغوب مانیں اور نہ  ہی غیر منظور شدہ کو عیب مانا جائےتو بھی  بکر کو موبائل واپس کرنے کا حق ہوگا کہ زید نے غلط بیانی کر کے   دھوکا دیا اور موبائل اتنا مہنگا بیچ دیا  جو قیمت لگانے والوں کے اندازے سے باہر ہے  تو یہ دھوکے سے غبن فاحش کے ساتھ بیچنا ہوا  اور جب کوئی دھوکا دے کر اپنی چیز غبن فاحش کے ساتھ بیچ دے تو خریدنے والا چیز واپس کر سکتا ہے  اور یہ تنہا بیع کو فسخ کرسکتا ہے۔

       اب تقریر سابق کی ترتیب کے مطابق نمبر وائز جزئیات ملاحظہ کیجئے۔

       (1)فتاوی عا لمگیری میں عیب کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ قال القدوری  في كتابه: كل ما يوجب نقصانا فی الثمن في عادة التجار فهو عيب وذكر شيخ الإسلام خواهر زاده :ان ما يوجب نقصانا في العين من حيث المشاهدة والعيان كالشلل في اطراف الحيوان، والهشم في الاواني او يوجب نقصانا في منافع العين فهو عيب وما لا يوجب نقصانا فيهما يعتبر فيه عرف الناس ان عدوه عيبا كان عيبا والا لا هكذا في المحيط‘‘یعنی امام قدور ی نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ ہر وہ چیز جو  عادت ِ تجار میں ثمن میں کمی کا سبب ہو ،تو وہ عیب ہے اور شیخ الاسلام خواہر زادہ نے بیان کیا کہ ہر وہ چیز جو دیکھنے میں عین کے اندرنقصان  کو لازم کرے جیساکہ حیوان کے اعضاء کا بیکار ہونا اور برتنوں کا ٹوٹا ہوا ہونا،یا پھر عین کے منافع میں نقصان کا سبب ہوتو وہ عیب ہے اور جو ان دونوں میں نقصان کا سبب نہ ہو، تو اس میں لوگوں کے عرف کو دیکھا جائے گا،اگر لوگ اس کو عیب شمار کرتے ہیں، تو وہ عیب ہو گا ،ورنہ نہیں،ایسے ہی محیط برہانی میں ہے۔

(فتاوی عالمگیری،کتاب البیوع،جلد3،صفحہ72،مطبوعہ کراچی)

       درمختار میں ہے :’’ لو ظهر أن الدار مشئومة ينبغي أن يتمكن من الرد،لأن الناس لا يرغبون فيها‘‘ یعنی  مکان خریدنے کے بعد اگر ظاہر ہوا کہ لوگ اس مکان  کو منحوس سمجھتے ہیں،  تو مکان واپس کرنے کا اختیار  ہونا چاہیے،کیونکہ لوگ ایسے مکان کی طرف راغب نہیں  ہوتے۔

       اس کے تحت رد المحتار میں ہے :’’ (قوله ينبغي أن يتمكن من الرد إلخ) أقره في البحر والنهر. وفي الولوالجية: والهتوع عيب، وهو مأخوذ من الهتعة، وهي دائرة بيضاء تكون في صدر الحيوان إلى جانب نحره يتشاءم به فيوجب نقصانا في الثمن بسبب تشاؤم الناس‘‘ یعنی: مکان واپس کرنے کا اختیار  ہونا چاہیے  الخ اس مسئلے کو بحر اور نہر میں یوں ہی برقرار رکھا اور والوالجیہ میں فرمایا:  ہتوع عیب ہے اور یہ ہتعۃ سے  ماخوذ ہے اور اس سے مراد  وہ سفید دائرہ ہے جو حیوان کے گلے کی جانب سینے  میں ہوتا ہے، لوگ اس کو منحوس سمجھتے ہیں  اور   لوگوں کے  منحوس سمجھنےکے سبب جانور کی قیمت کم ہو جاتی ہے ۔

(رد المحتار مع الدر المختار،کتاب البیوع،باب خیارالعیب،جلد7،صفحہ181،مطبوعہ  کوئٹہ)

       بہار شریعت میں ہے :’’مکان یا زمین خریدی لوگ اُسے منحوس کہتے ہیں واپس کرسکتا ہے، کیونکہ اگر چہ اس قسم کے خیالات کا اعتبار نہیں مگر بیچناچاہے گا ،تو اس کے لینے والے نہیں ملیں گے اور یہ ایک عیب ہے۔‘‘

(بھار شریعت،جلد2،حصہ11،صفحہ681،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

       درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :’’ إذا اشترى عرصة على أن ضريبة الأملاك التي تأخذها الحكومة عنها مائة قرش فظهر أن ضريبتها أكثر من ذلك فإذا عد ذلك عيبا عند التجار فللمشتري ردها بخيار العيب.ثالثا: إذا اشترى عقارا على كونه لا ضريبة عليه فظهر بعد الشراء أن عليه ضريبة فللمشتري الخيار بين أن يأخذه مع ضريبته بجميع الثمن المسمى وبين أن يرده‘‘ یعنی کسی نے  خالی جگہ خریدی، اس شرط پر کہ اس پر  ملک کا ٹیکس جو حکومت لیتی ہے، سو قرش ہو، پھر ظاہر یہ ہوا کہ اس کا ٹیکس  اس سے زیادہ ہے،توچونکہ یہ تجار کے نزدیک عیب شمار  کیا جاتا ہے،لہٰذا خیار عیب کی وجہ سے چیز واپس کرنے کاخریدارکو اختیا ر ہے اور اگر  زمین خریدی اس شرط پر کہ اس پر  کوئی ٹیکس نہیں ہے ، پھر  خریداری کے بعد معلوم ہوا کہ اس پر ٹیکس ہے، تو  خریدار کو اختیار ہے کہ جمیع ثمن کے ساتھ وہ زمین لے لے یا وہ زمین اسے واپس کر دے ۔

(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام ،جلد1،صفحہ344،دار الجيل)

       بدائع الصنائع میں ہے:’’ وصار اتباع النساء عادة له، فيكون عيبا فيه أيضا، لأنه يوجب تعطيل منافعه على المولى ‘‘ یعنی  عورتوں کے پیچھے گھومنا غلام کی عادت ہو، تو یہ بھی اس میں عیب ہو گا کیونکہ یہ آقا کے غلام سے وابستہ منافع ،معطل کرنے کو لازم ہے ۔

( بدائع الصنائع،جلد5،صفحہ274،دار الکتب العلمیه)

       بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :’’ (وصفا مرغوبا فيه كوصف السلامة) ش: أي كوصف سلامة المبيع.فإذا فات الوصف المرغوب فيه بظهور الخيانة كان بمنزلة العيب م: (فيتخير بفواته) ش: كما لو وجد المبيع معيبا‘‘ یعنی وصف مرغوب  اس میں مبیع کے سلامت ہونے کے وصف کی مانند ہے، پس جب  مبیع میں وصف مرغوب خیانت کی وجہ سے فوت ہو، تو یہ عیب کے درجے میں ہوگا، اس کے فوت ہونے کی وجہ سے خریدار کو ایسے ہی اختیار دیا جائے گا، جیسا کہ اگر مبیع کو وہ عیب دار پائے ،تو اختیا ر ملتا ہے ۔

( البنایہ شرح الھدایۃ،جلد8،صفحہ236،دارالکتب العلمیه)

       رد المحتار میں ہے :’’لأن الوصف المرغوب بمنزلة جزء من المبيع فيقابله جزء من الثمن حيث كان الوصف مشروطا، فإذا فات يسقط ما يقابله كخيار العيب‘‘ یعنی :کیونکہ وصف مرغوب  جب مشروط ہو،تو یہ مبیع کے جز  کے درجے میں ہے کہ  جہاں وصف  مرغوب مشروط ہو وہاں ثمن کا جز  اس کے مقابل ہوتا ہے،  پس جب یہ وصف فوت ہوگا تو اس کے مقابل ثمن بھی ساقط ہوگا، جیسا کہ خیار عیب میں ہوتا ہے ۔

( رد المحتار،جلد4،صفحہ581،دار الفکر ، بیروت)

       کتاب الاصل میں امام محمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’ وإذا اشترى الرجل خادما على أنها خراسانية فوجدها سندية كان له أن يردها وكان هذا عندي بمنزلة العيب‘‘یعنی :جب کسی شخص نے خادم خریدا اس شرط کے ساتھ کہ خراسانی ہو پھر خریداری کے بعد اسے سندی پایا تو خریدار کو اختیار ہوگا کہ غلام اسے واپس کر دے اور میرے نزدیک یہ  عیب کے درجے میں ہے۔

(کتاب الاصل،جلد5،صفحہ115،ادارۃ القرآن  ، کراچی)

       علامہ سرخسی  علیہ الرحمۃ اس مسئلے کے تحت اس کے  عیب ہونے کی علت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’ لأن الخراسانيات أكثر مالية من السنديات فإنما فات زيادة صفة مشروطة وذلك بمنزلة العيب في إثبات حق الرد ‘‘ کیونکہ خراسانی غلام  ، سندی سے مالیت میں زیادہ ہوتے ہیں توصفتِ مشروطہ کی زیادتی فوت ہوئی ہے اور یہ  حقِ رد ثابت کرنے میں عیب کے درجے میں ہے۔

(المبسوط للسرخسی،جلد13،صفحہ38،دار المعرفہ ،  بیروت)

       فتاوی قاضی خان، فتاوی ہندیہ اورجد الممتار میں ہے (و النظم للآخر):’’ وقد ذكر في ’’ الهندية‘‘عن ’’الخانية‘‘ في مسألة شراء الفضة على أنها زخم دار، فإذا هي غير زخم دار؛ أن فوات المشروط بمنزلة العيب فيتخير.‘‘ یعنی بے شک ہندیہ میں قاضی خان سے نقل کیا،چاندی خریدی اس شرط پر کہ زخمدار ہو جبکہ وہ زخمدار نہیں تھی تو  مشروط کا فوت ہونا عیب کے درجے میں ہے پس ( چیز واپس کرنے کا ) اسے اختیار دیا جائے گا ۔

( جد الممتار ، جلد6،صفحہ55، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

       فتاوی ہندیہ اورفتاوی قاضی خان میں ہے :’’ رجل اشترى نقرة على أنها زخمدار فقبضها فإذا بها لم تكن زخمدار كان له أن يردها لأن فوات المشروط بمنزلة العيب۔‘‘

(فتاوی قاضی خان ،جلد2،صفحہ203،مطبوعہ کوئٹہ)

       (2) کسی نے دھوکادے کر غبن فاحش سے چیز بیچ دی،تو خریدنے والا چیز واپس کر سکتا ہے، چنانچہ  عقود الدریہ میں ہے :’’ (سئل) في رجل اشترى من آخر نصف فرس ذكر البائع أنها معتقية الجنس وهو جنس مشهور بالجودة بثمن معلوم.. ثم ظهر أنها من جنس آخر ولا تساوي هذا الثمن وبين الثمنين تفاوت فاحش ويريد ردها بعد ثبوت ما ذكر بالوجه الشرعي فهل له ذلك؟ سوال: ایک شخص نے دوسرے سے   اُس گھوڑے کا نصف خریدا، جس کے بارے بائع نے بتایا کہ یہ معتقیۃ الجنس  کا ہے اور یہ جنس ثمن معلوم کے ساتھ عمدگی میں مشہور ہے، پھر معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا دوسری جنس کا ہے جس کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہوتی اور دونوں کی قیمتوں میں    بہت زیادہ فرق ہے، اب  جبکہ دلیل شرعی سے مذکورہ باتیں ثابت ہوچکی ،تو مشتری چاہتا ہے کہ یہ گھوڑا واپس کر دے تو کیا اسے یہ اختیار ہے ؟

       (الجواب) : نعم وأفتى بذلك العلامة الشيخ إسماعيل وفي فتاوى قارئ الهداية فيمن اشترى من آخر فرسا ذكر البائع أنها من نسل خيل فلان لفرس مشهورة بالجودة ثم تبين كذبه هل له الرد أم لا فأجاب إذا اشتراها بناء على ما وصف له بثمن لو لم يصفها بهذه الصفة لا تشترى بذلك الثمن والتفاوت بين الثمنين فاحش وهي لا تساوي ما اشتراها به له الرد إذا تبين خلاف ذلك. اهـ.‘‘ جواب: جی ہاں اسے یہ اختیار ہے  (وہ واپس کر سکتا ہے ) علامہ شیخ اسماعیل نے یہی فتوی دیا اور فتاوی قارئ الہدایہ میں ہے، جس نے دوسرے سے ایسا گھوڑا خریدا جس کے  بارے فروخت کرنے والے نے بتایا کہ یہ فلاں نسل کا گھوڑا ہےجو عمدگی میں مشہور ہے ،پھر اس کا جھوٹ واضح ہو گیا ،توکیا  مشتری گھوڑا واپس کرسکتا ہے یا نہیں  تو انہوں نے جواب دیا  کہ جب اس نے  یہ  گھوڑا اس ثمن  کا اسی وجہ سے خریدا جو اس کا وصف بیان کیا گیا  کہ اگر اس گھوڑے کا یہ وصف بیان نہ کیا جاتا، تو اتنی زیادہ قیمت میں ہر گز نہ خریدتا  اور دونوں قیمتوں میں فرق   زیادہ ہے اورجتنے میں خریدا ہے یہ گھوڑا اس قیمت کا نہیں  ہے،تو بائع(بیچنے والے) کے قول کے خلاف ظاہر ہونے کے بعد مشتری(خریدار) وہ گھوڑا واپس کر سکتا ہے ۔

(عقود الدریه،جلد1،صفحہ260،دار المعرفہ)

       درمختار میں ہے :’’وتجب في عقد مكروه وفاسد بحر. وفيما إذا غره البائع يسيرا نهر بحثا فلو فاحشا له الرد كما سيجيء‘‘یعنی عقد مکروہ اور فاسد میں اقالہ واجب ہے، بحر ۔ اوراس میں لازم ہے جب بائع غبن یسیر کے ساتھ دھوکا دے، نہر میں یہ بحث کے طور  ذکر کیا اور اگر بائع نے اسے زیادہ دھوکادیا ہو، تو خریدار چیز واپس کر نے کا حق رکھتا ہے، جیسا کہ ابھی آئے گا۔

       اس کے تحت رد المحتار میں ہے:’’(قوله: وفيما إذا غره البائع يسيرا إلخ) أصل البحث لصاحب البحر وضمن الشارح غره معنى غبنه والمعنى إذا غره غابنا له غبنا يسيرا: أي فإذا طلب منه المشتري الإقالة وجبت عليه رفعا للمعصية ‘‘ یعنی (اقالہ اس میں لازم ہے جب بائع غبن یسیر کے ساتھ دھوکا دے ۔۔الخ ) یہ اصل بحث صاحب بحر کی ہے اور شارح نے غرہ میں غبن کا معنی  ضمنا لیا ہے ، معنی یہ ہے کہ جب بائع غبن یسیر کے ساتھ اسے دھوکا دے ۔ یعنی اس صورت میں جب مشتری بائع سے اقالہ کا  مطالبہ کرے ،تو اس پر اقالہ کرنا واجب ہے تاکہ معصیت کا ازالہ ہو ۔

(رد المحتار مع الدرالمختار،کتاب البیوع،باب الإقالۃ،جلد7،صفحہ346،مطبوعہ کوئٹہ)

       شامی کی عبارت(إذا غره غابنا له غبنا يسيرا الخ) کے تحت تقریرات رافعی میں ہے:’’ موافق لما نقلہ السندی عن الرحمتی ان المراد یجب علی الغار منھما ان یجیب الیھا  و لا یمتنع دفعا للمعصیۃ التی ارتکبھا و لا تجب علی المغرور لان لہ ان یرضی بضرر نفسہ ‘‘ ترجمہ یہ اس کے موافق ہے جو علامہ سندی نے رحمتی سے نقل کیا ہے  کہ مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے دھوکا دینے والے پر واجب ہے کہ اقالہ کو قبول کرے اور اقالہ سے باز نہ رہے تا کہ اس معصیت کا ازالہ کر سکے جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے اور جسےدھوکا دیا گیا اس پر واجب نہیں کیونکہ اسے اپنے ضرر پر راضی ہونے کا اختیار ہے ۔

(تقریرات رافعی علی ھامش ''رد المحتار''، ج7،ص346،کوئٹہ)

       بہار شریعت میں ہے :’’ کوئی چیز غبن فاحش کے ساتھ خریدی ہے،اس کی دوصورتیں ہیں دھوکادیکر نقصان پہنچایا ہے یانہیں اگر غبن فاحش کے ساتھ دھوکا بھی ہے تو واپس کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ غبن فاحش کا یہ مطلب ہے کہ اتنا ٹوٹاہے جو مقومین کے اندازہ سے باہر ہو مثلاً ایک چیز دس روپے میں خریدی کوئی اس کی قیمت پانچ بتاتا ہے کوئی چھ کوئی سات تو یہ غبن فاحش ہے اور اگر اس کی قیمت کوئی آٹھ بتاتا کوئی نو کوئی دس تو غبن یسیرہوتا۔ ‘‘

(بھار شریعت،جلد2،حصہ11،صفحہ691،مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

       مزیدبہار شریعت میں ہے :’’بائع نے اگر مشتری سے کچھ زیادہ دام لے لیے اور مشتری اقالہ کرانا چاہتا ہے تو اقالہ کردینا چاہیے اور اگر بہت زیادہ دھوکا دیا ہے تو اقالہ کی ضرورت نہیں تنہا مشتری بیع کو فسخ کرسکتا ہے۔‘‘

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم