پراڈکٹ کے ساتھ آنے والا انعام دکاندار کا خود رکھ لینا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولیٰ 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات کمپنی کی طرف سے مختلف پراڈکٹس پر کوئی ایکسٹرا چیز مثلاً کیچپ ، جیم یا کسٹرڈ وغیرہ کا ساشہ لگا ہوتا ہے جو کمپنی بطورِ اسکیم گاہک کو دینے کے لئے لگاتی ہے تو ہم وہ ساشے اتار کر علیحدہ سے اپنی دکان پر بیچتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ہمارے لئے جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    خریدوفروخت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ جب ایک آدمی کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ اس چیز کا مالک بن جاتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے کوئی بھی جائز تصرف کرسکتا ہے اس پر وہ بیچنے والے کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پرایک شخص نے کوئی مکان خریدا اور مکان اس کے نام ٹرانسفر ہوگیا تو اب بیچنے والا اسے اس بات کا پابند نہیں کرسکتا کہ یہ مکان میرے فلاں رشتہ دار کو ہی کرایہ پر دو یا جب بیچنا ہو تو مجھے ہی بیچنا ، کیونکہ جب خرید و فروخت مکمل ہوگئی تو دونوں لاتعلق ہوگئے اب خریدار پر اس طرح کے کوئی حقوق عائد نہیں ہوں گے۔

    اس اصول کی روشنی میں دیکھیں تو حکم واضح ہوجاتا ہے کہ دکاندار کے پاس کوئی پراڈکٹ آتی ہے جس کے ساتھ انعام بھی جڑا ہوا ہے تو جب دکاندار نے یہ پراڈکٹ خرید لی تو انعام اس خریداری ہی میں شامل ایک چیز ہے اور خریدنے والے دکاندار کی ملکیت میں وہ چیز آجائے گی اب اس پر لازم نہیں کہ جو گاہک اس سے وہ چیز خریدے اسے انعام بھی ساتھ دے۔ اگر وہ انعام اپنے گاہک کو نہیں دیتا تو کسی شرعی جرم کا مرتکب قرار نہیں پائے گا۔ لیکن کاروباری اخلاقیات کی رُو سے دیکھا جائے تو یہاں مارکیٹنگ ٹولز ہوتے ہیں جن کو فالو کرنے میں دکاندار ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جب کمپنی کوئی انعامی اسکیم لانچ کرتی ہے تو اس کی بھرپور تشہیر کرتی ہے تاکہ وہ گاہک جو کسی اور کمپنی کی چیز خرید رہا ہے انعامی اسکیم کی وجہ سے ہماری کمپنی کی طرف راغب ہو اور کمپنی کی سیل میں اضافہ ہو۔ اب اگر دکاندار وہ انعام گاہک کو نہ دے توکمپنی کی سیل میں اضافہ نہیں ہوگا اور وہ چیز کم بکے گی تو دکاندار کو نفع بھی کم ہوگا۔ لیکن اگر وہ اسکیم کے مطابق انعام بھی گاہک کو ساتھ دے تو نہ صرف کمپنی کی سیل میں اضافہ ہوگا بلکہ خود دکاندار کو بھی اس کا فائدہ ہوگا کہ اس کی بھی آمدنی بڑھے گی نیز کمپنی کا وہ اسکیم لانچ کرنے کا مقصد بھی پورا ہوگا۔ لہٰذا کاروباری اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کی طرف سے جو چیز جس حالت میں آرہی ہے اسی حالت میں گاہک کو دی جائے اسی میں کاروباری فائدہ بھی ہے۔

نوٹ: اس جواب میں اصل چیز کے ساتھ شامل چیز کو عرفاً انعام کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے لیکن فقہی حقیقت کے تعلق سے یہ بھی مبیع ہی کا حصہ ہے لہٰذا جب یہ پتا ہو کہ فلاں فلاں چیز اتنے میں ہے تو مجموعی طور پر دونوں کا خریدنا ہی مقصود ہوگا اور جب انعام والی چیز شامل نہ ہو تو مبیع ایک ہی چیز پر مشتمل ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم