خرید و فروخت میں تول کر یا گِن کر بیچنے کا معیار کیا ہے؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الآخر 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض چیزیں مختلف علاقوں میں مختلف انداز سے بیچی جاتی ہیں جیسے کیلا اور مالٹا بعض جگہوں پر درجن کے حساب سے یعنی گن کر بکتے ہیں جبکہ بعض جگہ وزن سے بکتے ہیں۔ اس بارے میں شریعتِ مطہرہ کیا فرماتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     شریعتِ مطہرہ نے فریقین کو اس بات کا اختیار دیا  ہے کہ جس چیز کی خرید و فروخت ہورہی ہے اس کا وہ کوئی  بھی پیمانہ مقرر کرسکتے ہیں۔ لہٰذا مالٹا ، کیلا گن کر بھی بیچا جا سکتا ہے اور تول کر بھی۔ پھر وزن کے مختلف پیمانے ہوتے ہیں سیر ، کلو گز ، میٹر ، لیٹر ہر چیز کی کیفیت کے اعتبار سے فریقین کسی ایک واضح پیمانہ پر اتفاق کریں تو درست ہے بلکہ اگر بوری میں  بھر کر فی بوری کے حساب سے بیچنا چاہتے ہیں کہ فی بوری اتنی  قیمت ہے تو بھی جائز ہے اور اگر کسی ڈبے یا برتن کو مقرر کرکے بیچتے ہیں کہ فی ڈبہ یا فی برتن اتنی قیمت ہے تو بھی جائز ہے ۔ ہاں پیمانہ ایسا ہو کہ جس میں جہالت نہ ہومثلاً کسی برتن کو پیمانہ بنایا ہو تو وہ برتن دکھا دیا جائے کہ اس کے حساب سے مال ملے گا یا پھر اس برتن کا مکمل وصف بیان کر دیا جائے کہ اس میں اتنے کلو مال آتا ہے وغیرذٰلک۔

       لہٰذا  جب  پہلے سے دونوں کو معلوم ہے کہ پیمانے کا معیار کیا ہوگا اور  چیزتول کر بیچی جائے گی یا گن کر ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

     صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہرحمۃ اللہ القَوی  لکھتے  ہیں:“ گیہوں ، جَو اگرچہ کیلی (ماپ سے بکنے والی چیزیں )ہیں مگر سَلم میں ان کی مقدار وزن سے مقرر ہوئی مثلاً اتنے روپے کے اتنے من گیہوں یہ جائز ہے کیونکہ یہاں اس طرح مقدار کا تعیّن ہوجانا ضروری ہے کہ نزاع باقی نہ رہے اور وزن میں یہ بات حاصل ہے جو چیزیں عددی ہیں اگر سَلم میں ناپ یا وزن کے ساتھ ان کی مقدار کا تعین ہواتو کوئی حرج نہیں۔

 (بہارِ شریعت ، 2 / 799)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم