سنار کا کام کرنے والوں میں دھوکے کی ایک صورت کہ کم کریٹ والے سونے پر زیادہ کریٹ کی مہر لگانا کیسا؟

مجیب:مولانا شفیق مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1476

تاریخ اجراء:02ربیع الآخر1440ھ/10دسمبر2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سنار کے پاس کام کرنے والے کاریگر سے اگر مالک کہے کہ 20کریٹ والے سونے پر 21 یا 22 نمبر کی مہر لگاؤ،تو ایسا کرنا کیسا ہے ، جبکہ کاریگر کو سوفیصد معلوم ہے کہ یہ سونا کم کریٹ کا ہے ، مگر اس کو ظاہر زیادہ کیا جارہا ہے ؟ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کم کریٹ والے سونے کو زیادہ کریٹ والی مہر لگا کربیچنا یہ جھوٹ و دھوکہ ہے جو ناجائز وحرام ہے ،اس صورت میں مالک بھی حرام کام کا مرتکب اور کاریگر بھی اس حرام کام میں تعاون کرنے کی وجہ سے گنہگار ہے ، لہذا مالک اور کاریگر دونوں پر لازم ہے کہ اس جھوٹ و دھوکے سے باز رہیں ۔

    قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿لعنۃ اللہ علی الکذبین ﴾یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔

                                                                ( سورہ آل عمران ،آیت 61)

    دوسرے مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے :﴿ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ﴾ترجمہ:اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کر و ۔

(سورۃ المائدہ ،آیت نمبر 02)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کے متعلق فرمایا:’’ایاکم والکذب، فان الکذب یھدی الی الفجور وان الفجور یھدی الی النار وان الرجل لیکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا‘‘ ترجمہ: جھوٹ سے بچو، کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جانے کا سبب ہیں ۔  کوئی شخص جھوٹ بولتا اور سوچتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کی بارگاہ میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ ‘‘

(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید في الکذب، جلد 2، صفحہ 339، مطبوعہ لاهور)

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’من غشنا فلیس منا‘‘ ترجمہ : جو ہمیں دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘‘

(الصحیح لمسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 70، مطبوعه کراچی)

    سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتےہیں:’’غدر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد ۔ ‘‘

           (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم