Namaz Parhne Ke Baad Murtad Ho Gaya Phir Isi Waqt Toba Aur Tajdeed e Iman Kar Liya To Namaz Ka Kya Hukum Hoga?

نماز پڑھنے کے بعد مرتد ہو گیا پھر اسی وقت توبہ اور تجدید ایمان کر لیے تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12911

تاریخ اجراء:29ذوالحجۃ الحرام1444ھ/18جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ بارےمیں کہ معاذ اللہ اگر کوئی صریح کفر بک کر مرتد ہوجائے پھر وقت ہی میں دوبارہ اسلام قبول کرلے،  تو کیا اس وقت کی نماز اسے دوبارہ سے پڑھنا ہوگی؟ جبکہ وہ مرتد ہونے سے قبل اُس وقت کی نماز پڑھ چکا ہو۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں تجدیدِ ایمان کے بعد اُس وقت کی نماز دوبارہ پڑھنا اس کے ذمہ لازم ہوگا۔

   چنانچہ درِ مختار  میں ہے :”(تجب)صبی بلغ، و مرتد اسلم، و ان صلیا فی اول الوقت یعنی بچہ جب بالغ ہو اور مرتد جب اسلام لائے تو ان دونوں پر اس وقت کی نماز پڑھنا واجب ہے، اگر چہ انہوں نے اول وقت میں وہ نماز پڑھ لی ہو۔

   اس عبارت کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:” قوله:(ومرتد أسلم)أي إذا كان بين إسلامه وآخر الوقت ما يسع التحريمة كما في الحائض المذكورة، وحكم الكافر الاصلي حكم المرتد، وإنما خصه بالذكر ليصح قوله"وإن صليا أول الوقت" وصورتها في المرتد أن يكون مسلما أول الوقت فيصلي الفرض ثم يرتد ثم يسلم في آخر الوقت ح۔ قوله: (وإن صليا في أول الوقت) يعني أن صلاتهما في أوله لا تسقط عنهما  الطلب والحالة هذه۔ أما في الصبي فلكونها نفلا، وأما في المرتد فلحبوطها بالارتداد ح۔“ترجمہ:”قوله: (ومرتد أسلم)یعنی جب مرتد کے اسلام  قبول کرنے اور نماز کے آخری وقت میں اتنی گنجائش  ہو کہ وہ تکبیرِ تحریمہ کہہ سکے تو اس وقت کی نماز اُس پر فرض ہوگی جیسا کہ حائضہ عورت کے بارے میں یہ مسئلہ  بیان ہوا، اور کافر اصلی کا حکم مرتد والا ہی ہے۔ البتہ شارح نے مرتد کو خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا ہے تاکہ شارح کا یہ قول"وإن صليا أول الوقت"درست ہوجائے اور مرتد کے بارے میں اس کی صورت یہ ہے کہ مرتد نماز کے اول وقت میں مسلمان تھا پس اس نے فرض نماز ادا کی پھر وہ معاذ اللہ مرتد ہوگیا اور نماز کے آخری وقت میں وہ دوبارہ مسلمان ہوا تو اب اس وقت کی نماز دوبارہ پڑھنا اس پر فرض ہے، "حلبی"۔ قوله: (وإن صليا في أول الوقت)یعنی ان دونوں کی اول وقت میں پڑھی گئی نماز سے اُن کے ذمہ سے فرض ساقط نہیں ہوا جبکہ حالت یہ تھی۔ بہر حال بچے کا فرض تو اس لیے ادا  نہ ہوا کہ اس کی وہ نماز نفل تھی، اور مرتد کا اس لیے ادا نہ ہوا کہ ارتداد کے سبب اس کی وہ نماز باطل ہوگئی، "حلبی"۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 357، مطبوعہ بیروت)

   فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:”الوجوب يتعلق عندنا بآخر الوقت بمقدار التحريمة حتى أن الكافر إذا أسلم والصبي إذا بلغ والمجنون إذا أفاق والحائض إذا طهرت إن بقي مقدار التحريمة يجب عليه الصلاة عندنا، كذا في المضمرات ۔“یعنی ہمارے نزدیک نماز کے آخری وقت میں تکبیرِ تحریمہ کی مقدار کے برابر وقت کے ساتھ وجوب متعلق ہے یہاں تک کہ کافر جب اسلام لائے، بچہ جب بالغ ہو، مجنون کو افاقہ ہو، حائضہ عورت پاک ہو تو اگر تحریمہ کی مقدار برابر نماز کا وقت باقی ہو تو ہمارے نزدیک ان  پر نماز پڑھنا واجب ہوگا، جیسا کہ مضمرات میں مذکور ہے ۔ (فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 51، دار الفکر، بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اگر معاذ اﷲ کوئی مرتد ہو گیا پھر آخر وقت میں اسلام لایا اس پر اس وقت کی نماز فرض ہے، اگرچہ اوّل وقت میں قبل ار تداد نماز پڑھ چکا ہو۔(بہار شریعت ، ج 01، ص 444، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم