Imam Ruku Mein Ho To Aane Wala Shakhs Takbeer e Tehreema Ke Baad Hath Bande Ya nahi?

امام رکوع میں ہو,تو آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھے یا نہیں؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1840

تاریخ اجراء:10ذوالقعدۃ الحرام1441ھ/02جولائی2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام رکوع میں ہو ، تو آنے والا شخص تکبیرِ تحریمہ کہہ کر پہلے ہاتھ باندھے اور پھر امام کے ساتھ رکوع میں ملے ، یا ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلا جائے؟

سائل:محمد فیضان(روبی پلازہ،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    امام رکوع میں ہو ، تو آنے والا شخص اس طرح کھڑے کھڑے تکبیرِ تحریمہ کہے کہ ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچیں ، پھر اگر وہ جانتا ہو کہ امام صاحب رکوع میں اتنا وقت لگاتے ہیں کہ وہ ثنا یعنی سبحانک اللھم آخر تک پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہے ، تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھے ، کیونکہ ثنا پڑھنا سنت ہے ، اس کے بعد دوسری تکبیر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور اگر یہ گمان ہو کہ ثنا پڑھنے کی صورت میں امام صاحب رکوع سے اٹھ جائیں گے ، تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد ہاتھ نہ باندھے ،بلکہ فوراً دوسری تکبیر کہتا ہوا رکوع میں چلا جائے ، کیونکہ ہاتھ باندھنا اس قیام کی سنت ہے،جس میں ٹھہر کر کچھ پڑھنا سنت ہو اور جس قیام میں ٹھہرنا اور پڑھنا نہیں ہوتا ، اس میں سنت ہاتھ چھوڑنا ہے ۔

    تنویرالابصارودرمختارمیں ہے:”(من فرائضھا)التی لا تصح بدونھا(التحریمۃ)قائما“ترجمہ: نماز کےفرائض میں سے ،جن کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی ، کھڑے  ہونے کی  حالت  میں تکبیرِتحریمہ  کہنا

 ہے ۔

(الدر المختار مع رد المحتار ، ج2 ، ص158 ، مطبوعہ کوئٹہ)

     تنویر الابصار و در مختار میں ہے:”(وضع) الرجل (یمینہ علی یسارہ تحت سرتہ کما فرغ من التکبیر)بلا ارسال فی الاصح (و ھو سنۃ قیام لہ قرار ، فیہ ذکر مسنون) ملخصا“ترجمہ : تکبیر سے فارغ ہونے کے بعد مرد اپنا سیدھا ہاتھ ناف کے نیچے اپنے الٹے ہاتھ پر ، اصح قول کے مطابق بغیر لٹکائے رکھے اور یہ اس قیام کی سنت ہے ،جس کے لیے ٹھہرنا ہو ، اس میں مسنون ذکر ہو ۔

(الدر المختار مع رد المحتار ، ج2 ، ص228۔230، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی عالمگیری میں ہے:”کل قیام فیہ ذکر مسنون فالسنۃ فیہ الاعتماد ، و کل قیام لیس فیہ ذکر مسنون فالسنۃ فیہ الارسال کذا فی النھایۃ ، ملخصا“ترجمہ : ہر وہ قیام جس میں مسنون ذکر ہو ، اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے اور ہر وہ قیام جس میں  مسنون ذکر نہیں ، اس میں سنت ہاتھ لٹکانا ہے ، اسی طرح نہایہ میں ہے ۔

(الفتاوی الھندیۃ ، ج1 ، ص81، مطبوعہ کراچی)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”ہاتھ باندھنا سنت اس قیام کی ہے ،جس کے لیے قرار ہو ، کما فی الدر المختار وغیرھا من الاسفار (جیساکہ درمختار اور اس کے علاوہ بڑی کتابوں میں ہے) ۔“                                    

(فتاوٰی رضویہ،ج9،ص194،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس سوال کہ ”جماعت رکوع میں ہو ،تو مسبوق نمازی کونیت کرکے اور تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھنا چاہئے ، یا بے باندھے دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں جانا چاہئےیا ایک ہی تکبیر اس کےواسطے کافی  ہے یاکیا حکم ہے ؟ “کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ”ہاتھ باندھنےکی تواصلاً حاجت نہیں اور فقط تکبیرِتحریمہ کہہ کر رکوع میں مل جائے گا ، تو نماز ہوجائے گی، مگرسنت یعنی تکبیرِ رکوع فوت ہوئی ، لہٰذا یہ چاہئے کہ سیدھا کھڑا ہونے کی حالت میں تکبیرِ تحریمہ کہے اور سبحٰنک اللّٰھم پڑھنے کی فرصت نہ ہو یعنی احتمال ہو کہ امام جب تک سراٹھالے گا ، تومعاً دوسری تکبیرکہہ کر رکوع میں چلاجائے اور امام کا حال معلوم ہوکہ رکوع میں دیر کرتاہے ، سبحٰنک اللّٰھم پڑھ کر بھی شامل ہوجاؤں گا ، تو پڑھ کر رکوع کی تکبیر کہتاہوا شامل ہو ، یہ سنت ہے اور تکبیرِ تحریمہ کھڑے ہونے کی حالت میں کہنی توفرض ہے ، بعض ناواقف جو یہ کرتے ہیں کہ امام رکوع میں ہے ، تکبیرِ تحریمہ جھکتے ہوئے کہی اور شامل ہوگئے ، اگراتنا جھکنے سے پہلے کہ ہاتھ پھیلائیں تو گھٹنے تک پہنچ جائیں ، اللہ  اکبر ختم نہ کرلیا ، تونماز نہ ہوگی ، اس کاخیال لازم ہے ۔“

                              (فتاوٰی رضویہ،ج7،ص234۔235،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم